مادر ملت لائبریری روٹری کلب اور کراچی کی جھگیاں
نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں کتابوں کا ڈھیر دیکھ کر میں خوش ہوا۔ حیران بھی ہوا۔ شاہد رشید نے بتایا کہ روٹری انٹرنیشنل کے مقامی گورنر ساجد پرویز بھٹی نے ایوان قائداعظم کی مادر ملت لائبریری کے لئے دس ہزار کتابوں کا تحفہ دیا ہے اور آئندہ بھی بین الاقوامی سطح کی کتابوں کے عطیے کی پیشکش کی ہے۔ رشید و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی نے ایوان قائداعظم کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے لئے مسلسل کام ہو رہا ہے۔ اب یہ شاندار اور باوقار بلڈنگ تقریباً مکمل ہے۔ لائبریری کے لئے چار منزلہ عمارت کا نام نظامی صاحب نے مادر ملت لائبریری رکھا تھا۔ انہیں مادر ملت سے اتنی وابستگی تھی کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کی خوبصورت عمارت کے سامنے بہت کشادہ اور دلفریب پارک کا نام مادر ملت پارک رکھا تھا۔ مادر ملت کا خطاب بھی انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو دیا تھا۔ صدر ایوب کے خلاف انتخابات میں سب سے زیادہ سپورٹ مجید نظامی اور نوائے وقت نے مادر ملت کے لئے کی تھی۔ مادر ملت بھی نظامی صاحب کا بہت احترام کرتی تھیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں دھاندلی نہیں ہوتی تو پھر مادر ملت کیسے ہار گئیں۔ مشرقی پاکستان میں وہ جیت گئیں تو پھر بنگلہ دیش کیسے بن گیا ہے؟
ایوان اقبال بھی اپنی نگرانی میں نظامی صاحب نے تعمیر کرایا تھا۔ ایوان قائداعظم کی شاندار لائبریری میں پاکستان، نظریہ پاکستان اقبال اور قائداعظم کے حوالے سے کتب ہوں گی۔ اس کے علاوہ بھی دیگر موضوعات پر بین الاقوامی معیار کی کتابیں ہوں گی۔ پڑھنے والے ہر طرح کی مثبت علوم کی کتابوں سے استفادہ کر سکیں گے۔ یہ ایک بیش بہا عوامی لائبریری ہو گی جس سے خاص و عام سب لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ایوان قائداعظم کی تعمیر و تشکیل میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ذاتی دلچسپی لی۔ ان کی ہدایت پر پنجاب لائبریری فائونڈیشن نے 25لاکھ روپے کی کتابوں کی فراہمی کی ابتدا کر دی ہے۔ انہوں نے فرنیچر اور متعلقہ سازوسامان کے لئے بھی وعدہ کیا ہے۔ اس کے بعد لائبریری پوری طرح فنکشنل ہو جائے گی۔
مجھے یاد ہے کہ جنرل کونسل کے اہم اجلاس کی صدارت یہاں مجید نظامی نے کی تھی۔ شاہد رشید اس کے انتظام اور اہتمام کے نگران تھے۔ کچے فرش پر اس اجلاس میں بہت مزا آیا۔ اس میں ایوان قائداعظم اور مادر ملت لائبریری کے لئے اہم فیصلے ہوئے۔
روٹری کلب انٹرنیشنل نے ایوان قائداعظم کی لائبریری کے لئے ہرممکن خدمت کا یقین دلایا ہے۔ پاکستان میں روٹری کلب کی 400شاخیں ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی شاخیں 30ہزار سے زیادہ ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو خدمت انسانیت کے لئے کوشاں ہے۔ پاکستان میں انسانوں کے لئے سماجی خدمات کے کئی منصوبے مکمل ہو رہے ہیں۔ انسداد پولیو کے لئے ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ کچھ دن پہلے جامعہ نعیمیہ میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے تعاون سے ایک بڑا اجلاس ہوا جس میں عرفان صدیقی نے 2016ء کو پولیو کے خاتمے کا سال قرار دیا اور نعرے لگوائے۔
چیئرمین ٹرسٹ صدر رفیق تارڑ، چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد، میاں فاروق الطاف، کرنل ترین اور مجیدہ وائیں کے علاوہ کئی لوگوں نے مادر ملت لائبریری کے لئے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ میری تمام دوستوں اور خواتین و حضرات سے اپیل ہے کہ وہ مادر ملت لائبریری کے لئے کتابوں کی فراہمی کے حوالے سے کھل کر تعاون کریں۔ اس حوالے سے عطیات بھی عطا کریں تاکہ مادر ملت لائبریری کو پاکستان کے لئے ایک اعلیٰ اور بے مثال پبلک لائبریری بنایا جا سکے۔ بین الاقوامی طور پر پاکستان قائداعظم اقبال اور دیگر قومی اور عالمی حوالوں سے ایک نمائندہ کتاب گھر بنایا جا سکے۔ مجھے اس حوالے سے اپنا ایک جملہ بار بار یاد آتا ہے۔ کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں رہنا چاہئے۔
مجھے ایوان قائداعظم میں مادر ملت لائبریری پر بات کرتے ہوئے کراچی کی ان جھگیوں کا خیال آیا ہے جو پچھلے دنوں مٹی کا تودہ گرنے سے برباد ہوئیں۔ تین خواتین اور سات بچوں سمیت 13لوگ جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی ہوئے۔ بہت دیر کے بعد وہاں امدادی ٹیمیں پہنچیں۔ پولیس سے پہلے رینجرز والے پہنچ گئے کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان مجھے ملا تھا جو انہی جھگیوں میں رہتا ہے۔ وہ علم کی پیاس دل میں رکھتا ہے۔ وہ کسی کالج کا طالب علم ہے۔ کسی سے پوچھتا پوچھتا نظریہ پاکستان ٹرسٹ آیا تھا اسے کوئی کتاب چاہئے تھی۔ میرے کسی کالم میں مادر ملت لائبریری کے لئے پڑھا تھا۔ اس کی طلب اور تڑپ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ہمارے ملک میں ہزاروں جھگیاں ہوں گی تو وہاں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو کتابوں کے ساتھ محبت رکھتے ہوں گے۔
ملک میں اتنی لائبریریاں ہوں اور عوامی جگہوں پر بھی ہوں جہاں سے غریب لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ ایوان قائداعظم کی مادر ملت لائبریری بھی ایک عوامی لائبریری ہو گی جہاں عام لوگ بھی استفادہ کر سکیں گے۔ گلستان جوہر بلاک ون میں پہاڑی کے نیچے چائنا کٹنگ کے ذریعے متعدد پلاٹ بنوائے گئے جس سے پہاڑی ڈسٹرب ہوتی گئی اور مٹی کا تودہ گرنے کا سبب بنی۔ جھگیوں کے ذریعے ان جگہوں کو عام لوگوں کے لئے کشش کا باعث بنایا جاتا ہے اور پھر غریب اور غریب الوطن لوگوں کو نکال کر یہ پلاٹ مہنگے داموں بیچ دئیے جاتے ہیں۔ یہ قبضہ گروپ کی مخصوص واردات ہے۔ یہ جگہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے پیپلز پارٹی کے ایاز سومرو کو الاٹ کی تھی۔ نجانے سومرو صاحب کا ’’صدر‘‘ زرداری کے رازدار دوست ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو سے کیا رشتہ ہے۔ اس کے لئے برادرم ریاض شیخ سے پوچھنا پڑے گا؟ جیل میں ڈاکٹر کے طور پر زندگی شروع کرنے والا زرداری صاحب کا خادم خاص ہو گیا۔ اب سینیٹر ہے۔ وہ بھی ایاز سومرو کی طرح آج کل امیر کبیر ہے۔ مگر پیسے کی ہوس و حرص کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
ان پلاٹوں سے فائدہ تو ایاز سومرو کو ہو گا اور نقصان صرف غریبوں کا ہوا۔ غربت کی لکیر سے نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں کو صرف لالچ کے خمار میں ذلیل و خوار کرنا کوئی انسانیت ہے۔ نوجوان جو مجھے ملا تھا وہ کسی لائبریری میں تھا۔ بچ گیا۔ اس نے مجھے فون کیا کہنے لگا کتاب دوستی نے میری جان بچا لی۔ ورنہ مٹی کے تودے کی زد میں جو جھگی آئی وہ اس کے ساتھ والی جھگی میں رہتا ہے۔