میں ہوں پاکستان کے کوفے میں دربان حسینؓ
نامور خطیب، مایہ ناز ادیب، بہت اعلیٰ قومی شاعر، درویش خدا مست فقیری میں بادشاہ آغا شورش کاشمیری ایک عہد ساز انسان تھے۔ وہ زمانہ بھی کبھی واپس نہ آئے گا جس میں شورش کاشمیری رہتے تھے۔ ہمیں تو وہ زمین بھی نہیں ملتی جس پر وہ چلتے تھے۔ مجھے برادرم آغا مشہود شورش نے بتایا کہ وہ دن کا آغاز اس طرح کرتے کہ میں جاگتا تو دیکھتا کہ وہ ایک معمولی سی چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ’’نوائے وقت‘‘ اخبار ہے۔ وہ اس سے بہت پہلے نوائے وقتیا تھے جب مرشد و محبوب مجید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ پڑھنے والوں کیلئے ’’نوائے وقتیا‘‘ کا لقب استعمال کیا تھا۔ شورش کے منہ سے کئی بار سنا کہ ’’نوائے وقت‘‘ پڑھنا نیکی کی طرح اور جہاد کی طرح کا عمل ہے۔ وہ اخبار کے مطالعے کے بعد مجید نظامی کو بلاناغہ فون کرتے اور دیر تک باتیں کرتے رہتے۔
آغا صاحب کا مجید نظامی کے ساتھ وہی تعلق تھا جو علامہ اقبال کا قائداعظم کے ساتھ تھا۔ حمید نظامی کے ساتھ ان کی دوستی اس تعلق سے پہلے کی تھی۔ یہ ویسا ہی تعلق تھا جو پاکستان کے ساتھ پاکستانی قوم کا ہے۔ وہ حکمرانوں اور اپنے مخالفین کیلئے ضرب عضب کی طرح تھے۔ ان کے ہاتھ میں قلم تلوار کی طرح، رسول اللہؐ کی تلوار کی طرح تھا۔
محرم کا مہینہ ہے اور مجھے یاد آیا کہ وہ عشق رسولؐ میں سرشار دل رکھتے تھے اور غم حسینؓ کی طاقت سے لبالب رہتے تھے۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے سب سے بڑے پرچارک تھے۔ مسلمان ہونے پرفخر کرتے تھے، مسلمانوں کی تقسیم کرنے اور کسی فرقہ واریت کے فروغ کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑے تھے۔ لوگ بے چینی سے ان کے رسالے ’’چٹان‘‘ کا انتظار کرتے تھے۔ ایک بار آپ نے کربلا گامے شاہ میں تقریر کرتے ہوئے مشہور شیعہ لیڈر مظفر علی شمسی کو مخاطب کیا اور کہا ’’شمسی صاحب! اختلاف چھوڑیئے… اعتراف کرنا سیکھئے… آپ علیؓ کی تلوار لے کر آ جایئے، میں عمرؓ کا جذبہ لے کے آتا ہوں۔ دونوں ہمارے لئے نعمت کی طرح ہیں۔ دشمنوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے تو کامیاب ہونگے…
شمر ذوالجوشن پہ ہو لعنت خدا کی لاکھ بار
ہاتھ اس بدبخت کے تھے اور گریبانِ حسینؓ
عام ہے چاروں طرف ذریتِ ابن زیاد
میں ہوں پاکستان کے کوفے میں دربانِ حسینؓ
بے مثال بے بدل خطیب عطاء اللہ شاہ بخاری نے کمال بات کی… ’’شورش کی صورت میں ہمارا بڑھاپا جوان ہو گیا ہے‘‘۔ ان کی کلیات شاعری دیکھ کر محسوس ہوا کہ اتنی زیادہ شاعری کوئی شاعر نہیں کر سکتا۔ اتنی موٹی تازی کتاب مجھ سے تو اٹھائی بھی نہ جا سکے گی۔ ان کے فرزند آغا مشہود شورش نے کہا کہ پاکستان اور اسلام سے ان کی محبت لازوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو زوال نہیں۔ روحانی دانشور واصف علی واصف نے ان کے بعد کہا کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ہے۔ اس حقیقت میں چھپے راز کو وہی سمجھے گا جو نور اور روشنی میں فرق کو جان لے گا۔
فرید پراچہ نے انہیں قومی شاعر کہا ہے۔ عرفان صدیقی نے کہا ’’کسی ادیب کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ صاحب اسلوب ہے۔ شورش کاشمیری کیلئے صحافی کے طور پر بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ صاحب اسلوب صحافی ہیں۔ اس ادائے دلبرانہ میں کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ ان کی شاعری کا ایک مزاج تھا، صحافت میں بھی ایک ادبی رعنائی، زیبائی اور دل آویزی تھی۔ ایسی دلکشی صحافیانہ تحریر میں نہیں ملتی‘‘۔
’’نوائے وقت‘‘ ایک اعلیٰ قومی اخبار ہے تو اس کے پیچھے بھی شورش کاشمیری کا وژن ہے۔ حمید نظامی کے آخری دنوں میں لندن سے مجید نظامی کو شورش کاشمیری نے بلایا تھا۔ ایک طویل عرصے کیلئے مجید نظامی کو ’’نوائے وقت‘‘ کی ادارت کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہیں جب شریف فیملی کی طرف سے صدارت کی پیشکش ہوئی تو مجید نظامی نے کہا تھا کہ میرے لئے ’’نوائے وقت‘‘ کی ادارت پاکستان کی صدارت سے افضل اور اہم ہے۔
مجید نظامی کے بعد بھی ’’نوائے وقت‘‘ اپنی روایتی شان اور آن بان، وقار اور اعتبار سے قومی روایات کا پاسبان ہے۔ زندۂ جاوید شخص شورش کاشمیری کے گھر آج بھی ’’نوائے وقت‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ شورش کاشمیری کیلئے عرفان صدیقی نے یہ انوکھی بات کی کہ انہوں نے 20 عیدیں جیل میں منائیں۔ آغا صاحب کی تقریر کے بعد بھی لوگ چاہتے تھے کہ وہ سٹیج پر رہیں۔ جوش، جذبہ و ولولہ، طنطنہ ان کی سب حیثیتوں کا نمائندہ تھا، کسی منفعت اور منصب کی خواہش کو کبھی قریب نہ آنے دیا۔ انہوں نے اپنے مخالفوں اور ناپسندیدہ لوگوں کا پیچھا کیا۔ دولت، حکومت اور کسی حیثیت سے کبھی مرعوب نہ ہوئے۔ فقیری میں بادشاہی کی، کسی حکمران اور فرعون صفت انسان کیلئے کلمۂ حق کہنے میں کوئی مصلحت آڑے نہ آئی۔
لیڈر صحافی مجیب الرحمن شامی نے انٹرویو کے دوران لکھا کہ وہ جو کچھ کہتے تھے نجی زندگی میں بھی وہی تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے مشہود شورش سے کہا کہ ہمیشہ اپنی کلاس کا دفاع کرنا، اپنی زمین سے تعلق قائم رکھنا۔ شورش کاشمیری کے پاس حکمران، سیاستدان اور بڑے امیر کبیر انسان حاضری دیتے تھے۔ میں ان لوگوں کا نام نہیں لیتا کہ وہ شرمندہ نہ ہوں، ان کی روح مضطرب نہ ہو۔ شورش نے کہا کہ کسی ماں نے کوئی بیٹا جنم نہیں دیا جو مجھے خرید سکے۔ مجھے وہ کفن پہنائے جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو، جس کو لہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو۔ آپ نے یہ بھی وصیت کی کہ میری قبر پر کسی حکمران کو نہ آنے دیا جائے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو آئے اور بے بسی سے اجازت چاہی تو بڑی بیٹی نے اجازت نہ دی۔ وہ قبر پر کھڑے دیر تک روتے رہے۔
شورش نے ہمیشہ مجاہدانہ روایت کی نمائندگی کی اور ان کے ساتھ ہی وہ روایت ختم ہو گئی۔ ان کی سیاسی جماعت تھی نہ کوئی عوامی گروہ تھا مگر پوری قوم ان کی فوج تھی۔ وہ شعلہ بیاں مقرر تھے۔ ان کی تقریر اور تحریر میں ایک روشنی تھی، دلکشی تھی کہ سب لوگ منتظر رہتے تھے ان کو سنیں، ان کو پڑھیں۔ جب وہ حکمرانوں کو للکارتے تھے تو لگتا تھا کہ اونچے کوہسار سے پتھر نیچے آ رہے ہیں۔ آخری میں نظامی صاحب کیلئے ان کے چند شعر…
وہ ظلمات میں جگمگاتا رہا
نظامی دلوں کو جلاتا رہا
مخالف ہوائوں کا رخ پھیر کر
چٹانوں سے لڑتا لڑاتا رہا