’’ قیامت کا زلزلہ ‘‘آنے سے پہلے!
مسلمانوں پر جب کوئی ناگہانی مصیبت آ جائے اور اس کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان ہو تو اسے ’’ قیامتِ صُغریٰ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں جب کبھی سیلاب یا زلزلہ آتا ہے اور اُس سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے تو اسے بھی ’’قیامتِ صغریٰ‘‘ ہی کہا جاتا ہے لیکن یہ قیامتِ صُغریٰ ان لوگوں کے لئے ہوتی ہے جو اِس کی زد میں آتے ہیں ۔ جو لوگ محفوظ رہتے ہیں وہ خود کو اللہ کے ’’برگزیدہ بندے‘‘ سمجھتے اور ظاہر کرتے ہیں۔ عام طور پر سیلاب اور زلزلے سے کچے یا خستہ مکانوں میں رہنے والے لوگ ہی اپنی جان و مال گنوا بیٹھتے ہیں ۔ 1947ء میں بھارت تقسیم ہُوا تو فسادات کی قیامتِ صُغریٰ میں صِرف 20 لاکھ کے قریب عام مسلمان شہید ہُوئے۔ متمّول طبقہ کے مسلمان تو ہوائی جہاز پر بیٹھ کر پاکستان آگئے تھے۔
پاکستان میں 26 اکتوبر کو برپا ہونے والے زلزلے میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکا لیکن امریکی ادارے کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کا خیال ہے کہ ’’ قوم پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ متحد ہو جاتی ہے ‘‘۔ یہ اُن کا خیال ہے ۔ اِس لئے کہ قوم تو دو حِصّوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔ حکومت کرنے اور لُوٹ مار کرنے والا طبقہ اور وہ طبقہ جِس پر حکومت کی جائے اور لُٹے پِٹے لوگ کمیونزم/ سوشلزم کے علمبرداروں نے دوسرے طبقے کو "Oppressed Class" کا نام دیا تھا اور بھارت میں ’’ دَلِت‘‘ (کُچلے ہُوئے لوگ ) ایسے لوگوں کو قدیم بھارت میں ’’ شُودر‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہندو دیو مالا کے مطابق سب سے بڑے دیوتا ( خالق) ’’ برہما‘‘ کے بیٹے منوجی کی مبینہّ ’’منوشاستر ‘‘ کے مطابق سب سے نچلی ذات کے لوگ ’’شودر‘‘ کہلائے
گاندھی جی نے شُودروں کو ’’ ہری جَن‘‘ (بھگوان کی اولاد) کانام دے کر خوش کردیا اور اُس کے بعد یہ لوگ ’’ دَلِت ‘‘ کہلائے۔ بھارت میں کئی دَلِت سیاستدان صدر جمہوریہ، وزیراعظم، گورنر اور وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ پاکستان کے مسلمانوں میں بظاہر ذات پات کی تفریق نہیں لیکن عملی طور پر ذات پات مسلمان معاشرے کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ سب سے بڑا "Factor" سماجی/ معاشی تفریق ہے۔ یہاں ’’زمین سے زمین کی‘‘ یعنی زمینداروں کی زمیندار خاندانوں میں شادیاں ہوتی ہیں اور سرمائے کی سرمائے سے یعنی سرمایہ داروں کی سرمایہ دارخاندانوں میں۔
جب بھی ’’ قیامتِ صُغریٰ‘‘ برپا ہوتی ہے تو مولوی صاحبان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ’’یہ سب قوم کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے ۔ سب لوگ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، توبہ اور استغفار کریں‘‘۔ بلا شبہ یہ بھی ایک اچھا مشورہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے اور توبہ اور استغفار کرنے والوں میں ، اقتدار میں آ کر لوٹ مار کرنے والے اور بیرونی ملکوں میں لُوٹ کا مال جمع کرانے والے پہل کیوں نہ کریں؟ اور اگلی صفحوں میں کھڑے کیوں نہ ہُوں؟ ۔ تاریخ کے مطابق مُغل بادشاہ شاہجہاں لاہور میں تھا ۔ پنجاب میں قحط سالی تھی۔ یہاں کئی ماہ سے بارش نہیں ہُوئی تھی۔ کچھ ’’ علمائے حق ‘‘ نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ آپ لاہور کے عُلماء اور اپنے وزراء اور درباریوں کو لے کر سڑکوں پر آجائیں اور اللہ تعالیٰ سے بارش کی دُعا مانگیں۔ شاہ جہاں نے ایسا ہی کِیا ۔ پنجاب میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں اور قحط سالی دُور ہوگئی۔
کیا جمہوری دَور کے ’’ عُلمائے حق‘‘۔ صدر ممنون حسین ، وزیراعظم نواز شریف اور حزبِ اختلاف کے قائدین کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے اور توبہ استغفار کے لئے سڑکوں پر نہیں آسکتے؟ پاکستان کے باتدبیر وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کئی بار اہل پاکستان کی معلومات میں اضافہ کر چکے ہیں کہ ’’ پاکستان میں 60 فیصد عوام غُربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ‘‘۔ گویا 20 کروڑ آبادی میں سے 12 کروڑ آبادی تو سماجی اور معاشی طور پر ’’ دَلِت‘‘ ہے۔ آپ بھارت کی ’’دَلِت برادری ‘‘ کے لوگوں پراعلیٰ ہندو ذات کے لوگوں کے ظلم و سِتم کے بارے میں زبان و بیان کے معجزات دکھاتے ہیں، پاکستان کے ’’ دَلِت لوگوں ‘‘ پر توڑے جانے والے مظالم پر بھی دھیان دِیا کریں۔ محض نماز کے وقت۔
’’ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز‘‘
کا راگ الاپنا کافی نہیں ہوگا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ’’ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے مستقبل کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور حالیہ زلزلے کی شدت اکتوبر 2005ء کے زلزلے سے بہت زیادہ تھی‘‘۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حالیہ زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی میں ہونے کے باعث کم نقصان ہُوا‘‘۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ’’جہاں زیادہ شدت کا زلزلہ آئے وہاں دوبارہ آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے ‘‘ اور یہ کہ’’ زمین کی تہہ میں موجود تین بڑی پلیٹیں آپس میں ٹکرائیں تو زلزلہ آتا ہے ‘‘ ۔
اُدھر ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق ’’ بُھو‘‘ (زمین) ایک مقّدس گائے کے سینگوں پر کھڑی ہے اور جب وہ گائے زمین کا بوجھ ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر منتقل کرتی ہے تو ’’ بُھوکمپ‘‘ بُھونچال ( زلزلہ) آجاتا ہے۔ قرآن پاک کی ’’ سُورۂ زلزلال ‘‘ کو ’’ قیامت کا زلزلہ‘‘ کہا گیا ہے۔ جِس میں کہا گیا ہے کہ ’’جب زمین زلزلے سے ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کا بوجھ نکال ڈالے گی۔ انسان کہے گا کہ اِس کو کیا ہُوا؟۔ اُس روز وہ (زمین ) اپنے حالات بیان کر دے گی۔ لوگ گروہ در گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں گے ‘‘۔ ظاہر ہے کہ اختیارات اور مال و دولت کے لحاظ سے جِس انسان کے اعمال کا دفتر بڑا ہوگا ،اُس سے باز پُرس زیادہ ہوگی۔
قومی اخبارات میں 26 اکتوبر کے زلزلے کی خبروں کی سُرخیاں تھیں کہ ’’پہاڑ لرز اُٹھے ، عمارتیں جُھولتی رہیں، خوفزدہ لوگ گھروں سے نکل آئے اور ہر کوئی کلمہء طیبّہ کا وِرد کر رہا تھا ‘‘۔ وزیراعظم نواز شریف اپنا لندن کا قیام مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے ریسکیو کی خود نگرانی کرنے کا اعلان کرتے ہُوئے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سے کہا ہے کہ وہ احکامات کا انتظار کئے بغیر زلز لہ سے متاثرہ افراد کے لئے امدادی کارروائیاں کریں ۔ اقوامِ متحدہ،امریکہ اور بھارت سمیت کئی ملکوں نے پاکستان کوامداد کی پیشکش کی ہے لیکن حکومتِ پاکستان موجودہ حالات میں بھارت کی امداد قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف سے وزیراعظم نریندر مودی کی ماتا جی کے لئے سفید ساڑھی اورمودی جی کی طرف سے میاں صاحب کی والدہ کے لئے شال کے تحفوں کا تبادلہ اور بات تھی۔
وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف سے خیبر پختونخوا کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے (سرکاری وسائل سے) اعلان اچھی بات ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف اور چاروں صوبوں میں اقتدار میں شامل تمام جماعتوں اور حزبِ اختلاف کے قائدین ’’قیامت کا زلزلہ ‘‘ آنے سے پہلے اِس کارِ خیر میں اپنی جیبیں ڈھیلی کرنے کی عادت ڈالیں۔ جب زمین اپنا بوجھ نکال ڈالے گی تو نہ جانے کیا ہوگا؟۔