بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی پر 13 فلمسازوں نے نیشنل ایوارڈ واپس کر دئیے،400 ادیبوں، فنکاروں کا خط
نئی دہلی (نیوز ڈیسک) بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور مودی سرکار کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر ملک میں ہندوتوا کا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوششوں کے خلاف بھارتی ادیبوں، شاعروں اور دیگر اعتدال پسند حلقوں کے بعد اب سائنسدان اور فنکار بھی میدان میں نکل آئے۔ چنائے میں چار سو سے زیادہ سائنسدانوں اور فنکاروں نے ملک کے صدر پرناب مکھرجی کو دستخط شدہ خط بھجواتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں عدم برداشت مجرمانہ حد سے بھی آگے بڑھ چکی۔ ہم مرکزی و صوبائی حکومتوں اور عوام کو بیدار کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کی سماجی اور معاشرتی حالت نیوکلیئر بم جیسی ہو چکی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر قوم کو افراتفری کا شکار کر دے گی۔ صدر مکھر جی نے اگر صورتحال کا تدارک کرنے کے لئے فوری طور پر کچھ نہ کیا تو خطرات بہت بڑھ جائیں گے۔ علاوہ ازیں ملک بھر کے سائنس دانوں پر مشتمل گروپ نے عدم برداشت کے خلاف انٹرنیٹ پر ایک مہم شروع کی ہے جس میں فنکار اور مصور بھی شامل ہیں۔ ان افراد نے بھارتی صدر پرناب مکھر جی کے نام پٹیشن میں کہا ہے کہ لوگوں کو گوشت کھانے سے روکنا غیرانسانی عمل ہے۔ فنکاروں اور سائنس دانوں کے مطابق وہ اس مہم کے ذریعے عوام، مرکزی و صوبائی حکومتوں کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور ملک میں رواداری کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دریں اثناء 13 بھارتی فلمسازوں نے ملک میں بڑھتی انتہا پسندی اور اقلیتوں، غیرجانبدار مصنفین سے متعلق عدم برداشت کے بڑھتے رجحان کے خلاف احتجاجاً اپنے نیشنل فلم ایوارڈ واپس کر دیئے۔ اس امر کا اعلان معروف فلمساز دیبارکر بنیر جی اور آنند پٹوردھن نے ساتھیوں کے ہمراہ نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اقلیتوں سے عدم برداشت کا رجحان اور مصنف ایم کالبرگی کا انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہر بھارتی شہری کو تشدد اور عدم برداشت کے خلاف سامنے آنا اور بولنا چاہیے اور اقلیتوں ادیبوں پر حملوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ نیشنل فلم ایوارڈ بھارت کا سرکاری سطح پر فن کا اہم ترین ایوارڈ ہے جبکہ دیبارکر بنیر جی کھوسلہ کا گھوسلہ جیسی فلمیں بنا چکے ہیں۔ دریں اثناء ریاست کیرالہ کے نئی دہلی میں ارکان اسمبلی کیلئے قائم گیسٹ ہائوس ’’کیرالہ ہائوس‘‘ نے مودی سرکار کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے گیسٹ ہائوس کینٹین کے مینو میں پھر بڑا گوشت شامل کرکے پکانا شروع کر دیا۔ واضح رہے کہ کیرالہ ان بھارتی ریاستوں میں سے ہے جہاں بیف کھانے پکانے یا بیچنے پر کوئی پابندی نہیں۔ نئی دہلی کے کیرالہ ہائوس پر دہلی پولیس نے منگل کو ایک غیرمعروف انتہا پسند تنظیم ’’ہندوسینا‘‘ کی اس شکایت پر کہ گیسٹ ہائوس میں گائے کا گوشت پکایا جاتا ہے چھاپہ مارا تاہم کیرالہ کی ریاستی حکومت کے شدید ردعمل اور وزیراعلیٰ چانڈی کی طرف سے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھے جانے پر نئی دہلی پولیس کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ نئی دہلی پولیس نے ہندوسینا کے صدر وشنوگپتہ کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کر دیا۔ یہ وہی وشنو گپتہ ہے جس نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ایم ایل اے انجینئر عبدالرشید پر نئی دہلی پریس کلب کے باہر کالا رنگ پھکوایا تھا۔ واضح رہے کہ انجینئر عبدالرشید نے ہندو تنظیم کی کارروائیوں کیخلاف بطور احتجاج سری نگر کے اپنے گھر میں گائے کے گوشت کی پارٹی دی تھی جس پر بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کو مرچیں لگ گئی تھیں۔ بی جے پی ارکان نے عبدالرشید پر اسمبلی میں بیف کھانے کی حمایت پر تشدد بھی کیا تھا۔ دریں اثناء انجینئر عبدالرشید نے ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو گائے کے ذبیحہ اور گوشت کھانے کی اجازت دلانے کیلئے سری نگر میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے باہر کئی گھنٹے لیٹ کر احتجاج کیا۔ انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ریاستی حکومت اکثریتی طبقے کے جذبات کا احترام کرے اور بیف کھانے بیچنے گائے ذبح کرنے پر پابندی ختم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت کیرالہ حکومت کی طرح نئی دہلی کے جموں و کشمیر گیسٹ ہائوس میں بیف پکوانا شروع کرے ہم مسلمان گائے بھینس کا گوشت کھانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ کیرالہ ہائوس انتظامیہ نے انتہا پسند ہندوئوں کی مخالفت مودی سرکار کے ہتھکنڈوں کے باوجود اپنے کینٹین گذشتہ روز اعلان کے مطابق بیف پکوانا شروع کر دیا۔ انجینئر عبدالرشید نے کیرالہ حکومت کے اس جرأت مندانہ اقدام کو سراہتے ہوئے جموں کشمیر حکومت کو اسکی تقلید کرنے کیلئے کہا۔