دولت مند دردمند ہو اور غریب دل کے قریب ہو
حلقہ 122 میں نون اور جنون کا مقابلہ تھا۔ اسے شہباز شریف نے بہت انوکھے انداز میں نون بمقابلہ قارون کر دیا تھا جو بہت مشہور ہوا۔ برادرم عبدالعلیم خان کو اپنے امیر کبیر ہونے کا کوئی کمپلیکس نہیں ہے۔ بہرحال حلقہ 122 میں دونوں طرف سے بہت پیسہ لگایا گیا۔ ایاز صادق جیت گئے۔ وہ نوبل آدمی ہیں اور نفیس آدمی بھی ہیں۔ یہ بھی خواہش ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے پھر سپیکر بن جائیں جبکہ کچھ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ کوئی اور سپیکر بن جائیں مگر میرے خیال میں انہیں ہی سپیکر ہونا چاہئے۔ میں نے یہ بھی ازراہ تفنن لکھا تھا کہ اگر عبدالعلیم خان جیت جائے تو اسے سپیکر بنا دیا جائے۔ شاید اس طرح سیاسی ماحول میں کوئی رواداری اور وضعداری کی فضا قائم ہو اور لوگ سکھ کا سانس لیں۔
برادرم توفیق بٹ نے عبدالعلیم خان کے حوالے سے ایک بیش بہا جملہ لکھا ہے۔ ’’میرے پاس دولت کے انبار ہیں۔ یہ اللہ کی عطا ہے اور میں اللہ کا شکر گزار ہوں مگر میری دعا ہے کہ اللہ میرے ملک کو ایسا بنا دے کہ میرے بچے یہاں آرام سے اور عزت سے زندگی گزار سکیں۔‘‘ اس جملے کا حوالہ اپنے کالم میں برادرم فاروق انصاری نے بھی دیا ہے۔ برادرم علیم خان کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی ہے۔میرے وطن میں کرپشن عام ہے۔ ظلم زیادتی اور بے انصافی کا دور دورہ ہے۔ غریبی کو بدنصیبی بنا دیا گیا ہے۔ غریبی خوش نصیبی نہ تھی تو بدنصیبی بھی نہ تھی۔ کوئی کسی کا دکھ بانٹنے کے لیے تیار نہیں۔ کسی کی مدد کرنے کو آگے نہیں بڑھتا۔ جس کا جتنا اور چلتا ہے جس پر چلتا ہے وہ لگا دیتا ہے۔ امیر کبیر نہ خود پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں نہ اپنے بچوں کو یہاں رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف کمائیاں کرنے کے لیے یہاں ہوتے ہیں۔
وطن میں لوٹ مار کا بازار گرم کر کے اپنے اثاثے بیرون ملک شفٹ کرتے ہیں وہاں محلات بناتے ہیں۔ وہاں انہیں ایک پل بھی چین نہیں آئے گا۔ جو مزہ اپنی زمین پر ہے کہیں نہیں مل سکتا۔ اپنا زمانہ بھی اپنی زمین پر آتا ہے۔ اپنی زمین پر قدم جما کے کوئی عالمی سطح پر معروف ہو سکتا ہے۔ ہم علیم خان جیسے امیرکبیر لوگوں کو مبارکباد دیتے ہیں جو اس طرح دردمندی سے پوچھتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ ان کا پیسہ غریبوں اور ضرورت مندوںکے بھی کام آتا ہے۔ مخیر حضرات کی کمی ہمارے ہاں نہیں ہے دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ پاکستان میں ہیں۔
اب یہ سوچنا بے معنی ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا ہے۔ اب ہر طرف ایک ہی حال ہے ایک ہی صورتحال ہے۔ کئی لوگ ہیں کہ ان کے پاس بے تحاشا پیشہ ہے اور وہ ایک پیسہ فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امیر کبیر اچھے ہو سکتے۔ اگر وہ باضمیر ہوں اور اپنی دولت کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوں۔ ایک شخص بہت دیتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نہیں دیتا۔ مجھے اللہ نے دیا ہے۔ میں وہی لوٹا رہا ہوں۔ اللہ کے بندے کو دینا اللہ کو دینے کے مترادف ہے۔ دولتمند کے لیے دردمند ہونا ضروری ہے۔ امیر اور غریب ازل سے ہیں۔ یہ اللہ کا نظام ہے مگر اسے بدنظمی بننے سے بچایاجا سکتا ہے۔ امیری اور غریبی میں بہت زیادہ فرق ٹھیک نہیں ہے۔
ہم بھی غریب تھے مگر جو غریب تھے انہیں غریب ہونے کا احساس نہیں دلایا جاتا تھا۔ امیر بھی تھے مگر امیری کی دھونس کوئی نہیں جماتا تھا۔ دونوں جہانوں کے مالک کے محبوب ترین رسول کریم محسن انسانیت رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے سب کچھ اپنے اختیار میں ہوتے ہوئے فقیری میں زندگی گزاری۔
سلام اسؐ پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
امیر کے مقابلے میں فقیر ہے اگر وہ فطرت کے راز جانتا ہے غریب کا لفظ تو ہمارے معاشرے میں ایک گالی بنا دیاگیا ہے۔ فقیر اللہ کے قریب ہوتے ہیں۔ امیر بھی اللہ کے قریب ہو سکتے ہیں اگر وہ امیر ہونے کو اپنا کمال نہ سمجھیں۔ دانائے رازشاعر بے مثال علامہ اقبال نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
نام غریبی ہی میں پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کسی امیر کے لیے نام پیدا کرنا مشکل ہے۔ جو سونے کا چمچہ منہ لے کے پیدا ہو اسے زر و جواہرات کی کیا قدر؟ محنت اور خون پسینے کی کمائی سے ملنے والی دولت دل کی امین ہوتی ہے۔ کوئی عثمان غنیؓ جیسا ہو، کوئی قائداعظم جیسا ہو، حکیم سعید جیسا ہو، غیرمسلم بھی بڑے بڑے ہو گزرے ہیں۔ گنگارام ہسپتال ایک ہندو کی یاد دلاتا ہے تو برادرم عبدالعلیم خان کا ایک جملہ بھی میرے دل کو لگتا ہے، اللہ اسے ہدایت پہ رکھے اور اس کے دل کو دردمند بنائے۔ اس نے بھلائی کے کاموں کیلئے ایک فائونڈیشن بھی بنائی ہے جس کے ذریعے غریبوں، یتیموں اور حاجت مندوں کی کفالت کی جاتی ہے اور کئی منصوبے بھلائی کیلئے بنائے جاتے ہیں۔
میرے آقا و مولا میرے حضور میرے رسولﷺ نے فرمایا کہ میں چاہوں تو احد اور بدر کے پہاڑ سونے کے ہو جائیں۔ فقیری آپ کا چوائس تھا۔ اب ثابت ہو گیا ہے کہ احد اور بدر کے سینے میں معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کو امارت ورثے میں ملتی ہے مگر وہ وراثت کی اصل اہمیت سے واقف نہیں ہوتے۔ واقف ہونا ہی نہیں چاہتے۔ وہ امیری کو اپنا کمال سمجھنے لگتے ہیں اور یہی بات ان کے زوال کا باعث بنتی ہے۔
زیادہ تر لوگوں کیلئے غریبی چانس (نصیب) ہوتی ہے۔ یہ ہے تو مشکل مگر وہ چانس اور چوائس کو ملا جلا لیں تو ان کے لئے آسانیاں بلکہ آسودگیاں ہوں۔ اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھال لینے سے مشکلات کے سامنے ڈھال میسر آ جاتی ہے۔ راضی برضا لوگ مطمئن رہتے ہیں۔ مطمئن رہنا خوش رہنے سے افضل ہے۔ استغنا فقیروں کے پاس اور انا امیروں کے پاس ہوتی ہے۔ امیر تو اپنی دولت کے نشے میں ہوتے ہیں۔ فقیر دل کی دولت سے مالامال ہونا چاہئیں۔ امیر اور فقیر کا وطن ایک ہو تو زندگی شرمندگی اور درندگی نہیں بنتی۔
یہ بات صرف تحدیث نعمت کیلئے عرض کر رہا ہوں ورنہ میں تو فقیر دل آباد ہوں۔ میں گریڈ 17 میں لیکچرر تھا تو مجھے وحدت کالونی میں سرکاری کوارٹر 6۔ ڈی ملا تھا، میں اسی کوارٹر میں 20 گریڈ کے پروفیسر کے طور پر ریٹائر ہوا۔ اب یہ کوارٹر میرے بیٹے کے پاس ہے اور میں نے یہاں بڑے اطمینان اور خوشدلی سے زندگی گزاری ہے۔ پاکستان میں لندن سے ایک بہت بڑی فلاحی تنظیم ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے سید لخت حسنین تشریف لائے۔ وہ چند کالم نگاروں سے ملنا چاہتے تھے۔ میرے دوست قیدی بچوں کی فلاحی تنظیم ’’رہائی‘‘ والے عدیل گاڑی چلا رہے تھے۔ وہ بڑے بڑے علاقوں میں کالم نگاروں سے مل کر جب میری طرف آنے لگے تو حیران ہوئے کہ ڈاکٹر اجمل نیازی یہاں رہتا ہے۔ انہوں نے پہلی بات ہی یہ کہی کہ آپ یہاں رہتے ہو! میں نے کہا کہ نہیں…؟ میں اپنے دل میں رہتا ہوں۔ وہ کہنے لگا کہ میری سمجھ میں اب آیا کہ دل سے زیادہ اچھی اور شاندار جگہ کوئی نہیں ہے۔ محلات میں رہنے والے کیا جانیں کہ دل میں رہنا کیا ہوتا ہے؟ درد و گذاز تو صرف دل کے مکاں کا مکیں ہے۔
دردمند دولتمند دوسروں کے دکھوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کو سلام! غریب میرے دل کے قریب ہیں۔ ساری دنیا میں اکثریت غریبوں کی ہے مگر حکومت امیر کرتے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے۔ سلطانی جمہور کا زمانہ کب آئے گا؟ بہت پہلے میں نے چلڈرن ہسپتال میں ایک غریب بچے کیلئے کالم تھا۔ میں اس قسم کا کالم لکھنے سے گریز کرتا ہوں مگر دوستوں کے اصرار او بچے کی حالت زار دیکھ کر آنسوئوں میں قلم ڈبو کے کالم لکھا۔ کسی سے نام لے کے گذارش کرنا میرے لئے ناممکن ہے۔ مخیر خواتین و حضرات سے گذارش کی۔ نوائے وقت جو حق سچ کا علمبردار ہے، یہاں لکھی ہوئی بات کو لوگ اہمیت دیتے ہیں۔ یہ کالم پڑھ کے عبدالعلیم خان نے اپنے طور پر تحقیق کی اور مستحق بچے کیلئے مدد فراہم کی۔ میرے ساتھ اس بات کا ذکر بچے کے مظلوم مجبور والد نے کیا۔ علیم خان نے کوئی ذکر نہ کیا نہ میں نے اس کے ساتھ کوئی ذکر کیا۔ یہاں بھلائی کے طور پر ذکر کر رہا ہوں، یہ ذکر بھی ایک نیکی ہے۔ میری بات نہ کوئی ایسی نیکی ہے نہ دریا میرے سامنے ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال! میں نے یہ بات اپنے کالم میں لکھ دی ہے۔ منیر نیازی یاد آ رہا ہے…
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا