فاٹا کے خیبر پی کے سے الحاق کیلئے 22 ویں ترمیم کی حمایت کرینگے :ا ے پی سی
اسلام آباد/ لاہور (ایجنسیاں+ نامہ نگار خصوصی) کل جماعتی کانفرنس میں فاٹا کے صوبہ خیبر پی کے سے الحاق کی آئینی ترمیم کی حمایت کر دی گئی ہے، ترمیم کے تحت فاٹا کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کا دائر اختیار ان علاقوں تک بڑھایا جائے گا، ترمیم کے تحت قبائل کو اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کی ضمانت مل سکے گی۔ 16نومبر کو رشکئی گیٹ مردان سے پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد تک حقوق قبائل ریلی نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے، تمام آٹھ قبائلی ایجنسیوں کی عوام ریلی میں شریک ہونگے۔ فاٹا میں معاشی بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیرنو کے لئے پانچ کھرب روپے کا مالیاتی پیکیج، زلزلہ میں جاں بحق افراد کے ورثاء کو فی کس 10لاکھ، زخمیوں کو 5، 5 لاکھ جبکہ تباہ شدہ گھر کیلئے 5 لاکھ روپے اور جزوی تباہ گھروں کے لئے ڈھائی لاکھ روپے امداد دینے کے مطالبات کئے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں اس کانفرنس سے جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی، تحریک انصاف، نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، فاٹا پارلیمانی رہنما اور قبائلی عمائدین نے خطاب کیا۔ سراج الحق نے کانفرنس کی صدارت کی۔ خورشید شاہ نے اپوزیشن کی جانب سے حقوق قبائل ریلی کا پارلیمنٹ ہائو س کے سامنے استقبال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے مشترکہ اعلامیہ پڑھا جس میں میں کہا گیا ہے کہ قیام پاکستان کے 68 سال بعد بھی فاٹا کے ایک کروڑ عوام کی آئینی حیثیت بدستور مخدوش ہے کیوں کہ وہاں آئین پاکستان کے دو آرٹیکلز (274...246) کے سوا پورا آئین لاگو نہیں ہے۔ اس لئے فاٹا کے لوگ آئینی، قانونی، جمہوری، سیاسی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور وہاں بدستور ایف سی آر جیسا سامراجی قانون نافذ ہے۔ فاٹا کے لئے قوانین بنانے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہوتا ہے۔ اس طرح فاٹا میں ایک آئینی وقانونی خلا موجود ہے۔ گویا فاٹا دنیا کی واحد سرزمین بے آئین ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے فاٹا سے منتخب ارکان پارلیمنٹ نے قومی اسمبلی میں 22ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا ہے جو بہت بروقت قدم ہے۔ فاٹا کی موجودہ صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ جنگ وجدل کے نتیجے میں لاکھوں قبائلی عوام آئی ڈی پیز کی صورت میں ملک کے مختلف حصوں میں پناہ لے چکے ہیں اور بعض لوگ کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں کیونکہ فاٹا میں دو لاکھ کے لگ بھگ مکانات تباہ ہو چکے ہیں جس کے لیے حکومت نے تاحال دوبارہ تعمیر نو کیلئے کچھ بھی نہیں کیا اور لوگ بدستور بے سروسامانی میں بھکاریوں کی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔ آفتاب خان شیرپائو نے کہا کہ فاٹا کو پاٹا میں تبدیل کرنا قبائلی عوام کو حقوق دینے کے سلسلے میں پہلا قدم ہو گا۔ رکن قومی اسمبلی حاجی شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ اس وقت قبائلی عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، انگریزوں کے جانے کے باوجود فاٹا میں انگریزوں کا قانون ایف سی آر موجود ہے، فاٹا سے فوری طور پر ایف سی آر کو ختم کیا جائے، اگر فاٹا عوام کو مرکزی ادارے میں لانے کیلئے بل منظور نہ کیا گیا تو میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دوں گا۔