تَبرّکات ومتفرّقاتِ بلدیاتی انتخابات!
پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ماضی کی دو سیاسی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی "Grass Roots" یعنی بنیادی سطح پر عوامی مقبولیت سندھ اور پنجاب کی حد تک سُکڑ کر رہ گئی ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ 720 نشستیں حاصل کر کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اِس اعلان کی لاج رکھ لی ہے کہ ’’مرسُوں مرسُوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔ سندھ میں مسلم لیگ ن صِرف تین نشستیں حاصل کر سکی ہے۔ کراچی کے صدرِ سخن وَر جناب ممنون حسین کا ’’کمالِ نَے نوازی‘‘ بھی کچھ کام نہیں آیا۔ اِدھر پنجاب میں مسلم لیگ ن کی 1193 نشستوں کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو صِرف 47 نشستیں مل سکی ہیں۔ سابق صدر جنابِ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے کامیاب امیدواروں کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’’پیپلز پارٹی ختم ہونے کی پیش گوئیاں خاک میں مِل گئی ہیں‘‘۔ اس سے ثابت ہُوا کہ جب تک شہیدوں کی پارٹی کا خاتمہ بالخیر نہ ہو جائے جنابِ زرداری اُستاد رند کے فلسفے کے قائل رہیں گے جنہوں نے کہا تھا کہ …
کُشَتۂ تیغِ ادا بھی ، تیرا کہلایا شہید
قبر پر بعدِ فنا، پُھول چڑھے ہار پڑے
چاروں صوبوں کی زنجیر محترمہ بے نظیر بھٹو کی رُوح کو تو بہت بڑا صدمہ ہُوا ہوگا لیکن جنابِ زرداری کا خیال ہے کہ اُن کا پیغام پیپلز پارٹی کے ہارنے والے امیدواروں کے لئے "Shock Absorber" (صدمہ روک) ثابت ہوگا۔ پیپلز پارٹی ختم ہوگئی تو زرداری صاحب دُبئی میں مستقل رہائش رکھ لیں گے لیکن گلی محلوں اور دیہات کے ہارے والے جیالوں کا جینا مرنا تو پاکستان میں ہے۔ پارٹی کے بانی چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی پانے سے قبل کہا تھا کہ ’’میں اگر نہ رہا تو ہمالہ روئے گا‘‘۔ جناب بھٹو کا اندازہ غلط ثابت ہُوا۔ ہمالہ تو نہیں رویا لیکن بہت سے جیالے ضرور روئے تھے اور بھٹو اور بھٹو خاندان اور پھر زرداری اور زرداری خاندان کا عَلم بلند کرتے ہُوئے جن کی جوانی اب بڑھاپے میں تبدیل ہوگئی ہے اور انہیں کچھ نہیں مِلا، وہ تو اب بھی رو رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ میں کامیاب ہونے والے "Independent" (آزاد) امیدوار (1065 اور 174) دوسرے نمبر پر رہے۔ جن امیدواروں کو کسی پارٹی سے ٹکٹ نہیں مِلتا یا جن امیدواروں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی پارٹی کے ٹکٹ کے بغیر ہی جیت جائیں گے وہ مِنّت ترلے کے لئے پارٹی لیڈروں کے دروازے پر نہیں جاتے۔ پنجاب اور سندھ میں کامیاب ہونے والے امیدواروں سے ؎
کیا خوب سودا نقد ہے
اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے
کے اصول یا وصول کے تحت سودا بازی ہوتی ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت شامل ہونے والے کچھ ’’آزاد گانِ سیاست‘‘ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے لئے بڑا عہدہ طلب کریں گے اور حاصل بھی کر لیں گے۔ پھر پُرانے اور مُخلص کارکنوں کا کیا ہوگا؟۔ دونوں جماعتوں میں انتخابات تو ہوتے ہی نہیں۔ پارٹی لیڈر اور اس کے خاندان کے لوگ خُدائی اختیارات رکھتے ہیں اور ’’ جِسے پیا چاہے وہی سُہاگن‘‘ ’’آزاد‘‘ فقیروں کے ایک فرقے کو بھی کہا جاتا ہے جو کسی قوم اور مِلّت کے پابند نہیں ہوتے۔ پھر آزادگانِ سیاست اگر یہ دعویٰ کریں کہ ’’ہم تو عبادت سمجھ کر سیاست کرتے ہیں ‘‘۔ تو؟ مرزا اسد اللہ خان غالبؔ نے خود کو ’’آزاد‘‘ قرار دیتے ہُوئے اپنے انجام کی پیشگوئی اِس طرح کر بھی دی تھی ؎
یہ نعشِ بے کفن اسدِؔ خستہ جان کی ہے
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
خبر ہے کہ ’’پنجاب میں دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں کی ابھی سے مانگ بڑھ گئی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ٹکٹیں بلیک بھی ہوسکتی ہیں۔ سیاسی پارٹی کے ٹکٹوں کی بلیک پر پکڑ دھکڑ نہیں ہوتی۔ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کے رانا ثناء اللہ گروپ اور چودھری شیر علی گروپ میں صلح نہیں کرا سکے تھے۔ دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ’’کامیابی‘‘ حاصل کی۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے شریف برادران کی وفاداری کا دم بھرتے ہوئے اپنے والد محترم مسلم لیگ کے باغی لیڈر چودھری شیر علی کا ساتھ دِیا اور ووٹروں کو شیرؔ کے مقابلے میں بالٹی ؔپر ٹھپّا لگانے کی تلقین کی۔ پہلے رانا ثناء اللہ پر 20 افراد کے قتل کا الزام تھا، اب عابد شیر علی اور ایم پی اے طاہر جمیل سمیت 25 لیگی کارکنوں کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے قتل کا مقدمہ درج ہوگیا ہے ۔ فیصل آباد میں میئر کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ تو میاں صاحبان ہی کریں گے۔ بہرحال فیصل آباد میں دو ہی سیاسی لیڈروں کا سِکہ چلتا ہے ؎
اک شیر علی، اِک رانا ثناء
پنجاب سے سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور پڑھا لکھا پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی جماعت مسلم لیگ ق نے 44 نشستیں حاصل کر کے داد وصول کی۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کو کیا مِلا؟ یہ وہ لوگ بتائیں گے جو ’’اپنا اپنا مسلم اور اپنی اپنی لیگ‘‘ ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں۔ عوام ( ووٹروں) نے سب سے زیادہ زیادتی جناب سراج الحق کی جماعتِ اسلامی اور کینیڈین شیخ اُلاسلام‘‘ علاّمہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ کی۔ صِرف دو نشستوں پر ٹرخا دِیا۔ 1951ء کے عام انتخابات میں ناکامی کے بعد جماعتِ اسلامی کے بانی امیر مولانا مودودی نے کہا تھا کہ ’’اِس مُلک میں انتخابات کے ذریعے اِسلام نہیں آسکتا‘‘ لیکن جناب سراج اُلحق تو مِلّت اسلامیہ کو نوید دے چُکے ہیں کہ ’’میری قیادت میں خلافت کا مرکز پاکستان ہوگا‘‘ اور علاّمہ طاہر اُلقادری جب بھی پاکستان کے دورے پر تشریف لاتے ہیں تو ’’غریبوں کے حق میں انقلاب‘‘ لانے کا اعلان کردیتے ہیں۔ اب اگر ان دونوں جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات میں بھی منتخب نہیں کِیا جاتا تو یہ ’’مِلّت اسلامیہ‘‘ اور پاکستان کے غریبوں کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟
مولانا فضل اُلرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کے 11 ارکان منتخب ہُوئے ہیں ۔ یہ مولانا صاحب کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ عمران خان اور ریحام خان میںاگر طلاق نہ بھی ہوتی تو بھی پاکستان تحریکِ انصاف کو پنجاب میں اُتنی ہی نشستیں مِلتیں جتنی کہ اب (285) ملی ہیں۔ سندھ سے تحریک انصاف نے 5 اور ایم کیو ایم نے 4 نشستیں حاصل کِیں۔ تحریک انصاف کو ایک نشست اِس لئے زیادہ مِلی کہ عمران صاحب نے 8 اپریل 2015ء کو کراچی میں انکشاف کِیا تھا کہ ’’میری والدہ صاحبہ 1947ء میں بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھیں ۔ اِس لئے مَیں بھی آدھا مہاجر ہُوں‘‘۔ عمران خان کے اِس بیان پر قائدِ تحریک جناب الطاف حسین نے کہا تھا کہ ’’مَیں عمران خان کو پُوا مہاجر تسلیم کرتا ہُوں‘‘۔ ثابت ہُوا کہ سندھ میں آباد مہاجروں نے جناب الطاف حسین کا بلدیاتی نشستوں کا کوٹہ عمران خان سے کم کردِیا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کا تو یہ دعویٰ تھا کہ ’’الطاف بھائی کروڑوں عوام کے لیڈر ہیں‘‘۔ مِیر تقی مِیرؔ نے بھی اپنے دوست کا نام سُنتے ہی اپنے آنسوئوں کی گنتی کرتے ہُوئے کہا تھا ؎
سُنتے ہی نام آنکھ سے آنسو گرے کروڑ