مذاکراتی عمل رک گیا‘ حکومتی وکیل کے مؤقف سے تعلقات میں دراڑ آگئی: فاروق ستار
کراچی(خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) فاروق ستار نے کہا ہے کہ لاہو ر ہائیکورٹ کی جانب سے الطا ف حسین کی تقریر نشر کرنے اور تصویر پر عائد پابندی کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سرکاری وکیل کا مؤقف ہمارے لئے انتہائی صدمہ کاباعث اور ناقابل فہم ہے اور اس موقف سے وفاقی حکومت کی دو عملی ، دوہرا معیار اور منافقت ظاہر ہوتی ہے جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں ۔وزراء کی جانب سے مذاکرات میں یہ باور کرایاجارہا ہے کہ ہم الطاف حسین پر مقدمے کو غداری کے زمرے میں نہیں لے رہے ہیںاور نہ ہی ان کا میڈیا پر بلیک آئوٹ چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب اب نجی پٹیشن کو جواز بنا کر سرکاری وکیل یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ یہ بیان غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر الطاف کابیان غداری کے زمرے میں آتا ہے تو وفاقی حکومت نجی پٹیشن کا سہارا کیوں لے رہی ہے ؟وفاقی حکومت کو کھل کر سامنے آنا چاہئے ، اگروفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ الطاف یا ایم کیوایم کا کوئی بیان ریاست پاکستان کے برخلاف زمرے میںآتا ہے تو سامنے آکر الطاف حسین اور ایم کیوایم پر غداری کا مقدمہ بنایاجائے ہم اس کا عدالت میں سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ انہوںنے وزیراعظم سمیت وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ا س معاملے میں اپنی پوزیشن کو واضح کریں تاکہ ہم آئندہ کا اپنا لائحہ عمل واضح کرسکیں۔پریس کانفرنس میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ وزیراعظم نواز شریف ‘ اسحاق ڈار ،پرویز رشید ایم کیوایم کے ساتھ ایک طرف مذاکرات کررہے ہیں، ایم کیوایم کو منا رہے ہیں اور یہ یقین دہانی کرارہے ہیں کہ شکایات کا ازالہ ہوگا،ہمیں وزراء نے مذاکرات میں یہ یقین دلایا تھا کہ سرکاری وکیل سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں یہ مئوقف اختیار کرے گا کہ حکومت الطاف حسین ہوں یا کوئی سیاسی رہنما ہو پیمرا کے ذریعے سے اسے ریگولیٹ کرے گی اور حکومت کا الطاف حسین کے خطاب ، انٹرویو ، اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اوریہ حکومت کی پالیسی ہے جو ہمارے سامنے بیان کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ امید تھی کہ سرکاری وکیل یہی موقف اختیار کرے گا جس سے سپریم کورٹ کو آسانی ہوتی ۔و زیراعظم ، وزیر خزانہ ، وزیرا طلاعات سے رابطہ کیا ہے ، ہم نے اٹارنی جنرل سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان چاروں حکومتی نمائندوں سے یہ سوال کیاہے کہ سرکاری وکیل نے سپریم کورٹ جو مؤقف اختیار کیا ہے کیا یہ حکومت کا موقف ہے اگر ایسا ہے تو وفاقی حکومت کر مردوں کی طرح منافقت ترک کرکے سامنے آنا چاہئے ۔وزیراعظم سے رابطہ نہیں ہو سکا لیکن اسحاق ڈار ملک سے باہر ہے۔ اٹارنی جنرل نے فون پر مجھ سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس معاملے پر اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ میرے علم میں نہیں ہے۔ ہمارے اور حکومت کے تعلقات میں ایک مرتبہ پھر دراڑ ڈال دی گئی ہے۔ دودھ میں مینگنی ڈال دی گئی ہے۔ یہ سازش ہے یا حکومت کی پالیسی ہے‘ اسے واضح کرنا ہوگا۔ سرکاری وکیل نے جو حرکت کی ہے وہ عجیب و غریب اور سرکاری پالیسی کے منافی ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے جو معاہدہ سائن ہوا اس کے تحت ہمارے سینیٹر سینٹ میں واپس چلے گئے اور قومی اسمبلی کے ارکان 6 نومبر کے اجلاس میں اسمبلی میں جا رہے ہیں۔ حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان مذاکراتی عمل رک گیا ہے۔ حکومتی پالیسی کے مطابق 6 نومبر کو قومی اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے نجی ٹی وی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے تحفظات پر ازالہ کمیٹی بنائی گئی۔حکومت ایم کیو ایم معاملہ آگے بڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔