انسانی حقوق کونسل کارکن منتخب نہ ہونا حکومتی ناکامی نہیں: خرم دستگیر، چیئرمین سینٹ نے موقف مسترد کر دیا
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نیوز ایجنسیاں) سینٹ میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے انتخاب میں پاکستان کی شکست کے اسباب کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ یہ شکست قومی المیہ ہے جس کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے اندر بھارتی مظالم کی آواز نہیں اٹھا سکے گا جبکہ بھارت پاکستان کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اچھالے گا۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی تحریک التواء کی موزونیت اور سینیٹر سسی پلیجو کے توجہ مبذول کرائو نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا گیا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب نہ ہونا بہت پریشان کن ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ پتہ ہونا چاہئے کہ کس ملک نے ہمیں ووٹ نہیں دیا اور کیوں نہ دیا خراب انسانی حقوق کے ریکارڈ والے ملک اس کونسل کے رکن بن گئے۔ سسی پلیجو نے کہا کہ ایک سو ترانوے میں سے پاکستان کو صرف ایک سو پانچ ووٹ ملے۔ ملک کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ بیرون ملک کوشش ہی نہیں کی گئی۔ دفتر خارجہ اس معاملے کو دبانے کی کوشش کررہا ہے۔ فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ یمن فوج نہ بھجوانے پر امارات کے وزیر خارجہ نے دھمکی دی تھی کہ پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اب خلیجی ملکوں نے ووٹ نہیں دیا۔ چھان بین کی جائے کہ ووٹ نہ دینے کے معاملہ کو اماراتی وزیر کی دھمکی سے کوئی تعلق ہے۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی اور ایک تکلیف دہ دن ہے یہ ایسی ناکامی ہے جس کے لئے کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ (ق) لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اہم ترین وزارت کا کوئی وزیر ہی نہیں۔ تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ حکومتی توجہ ہی اس طرف نہیں۔ دریں اثناء وفاقی وزیر صنعت و تجارت انجینئر خرم دستگیر نے سینٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کا بطور رکن منتخب نہ ہونا وزارت خارجہ یا حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ پاکستان کو 105ممالک نے ووٹ دیا اور 121 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا جس کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی لیکن پاکستان اس وقت بھی اقوام متحدہ کی چودہ سے زیادہ تنظیموں کا حصہ ہے۔ چیئرمین سینٹ نے مئوقف مسترد کرتے ہوئے معاملے کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی سول حکومت کے ہاتھ میں نہیں بلکہ فوج کے ہاتھ میں ہے جس کی وجہ سے ہمیں ناکامی ملی ہے۔ آئی این پی کے مطابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب نہ ہونے کے حوالے سے تحریک التواء پر حکومتی موقف مسترد کرتے ہوئے معاملہ سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کو ریفر کرتے ہوئے ایک ماہ کے اندر کمیٹی سے رپورٹ طلب کرلی‘ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ وزیر تجارت خرم دستگیر نے اس حوالے سے کافی بہتر جواب دیا ہے لیکن اس کے باوجود ایوان یہ خیال کرتا ہے کہ اس ایشو کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ ایوان میں آنی چاہئے اس لئے یہ معاملہ ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ دریں اثناء بدھ کے روز سینٹ کو بتایا گیا کہ ایوان بالا کو بتایا گیا ہے کہ پانچ برس کی مدت کے دوران کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں 87شہری شہید اور چار سو سات زخمی ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت شہداء کے خاندانوں میں ہر ایک کو تین لاکھ روپے، مستقل معذور ہونے والوں کو دو لاکھ روپے اور دیگر زخمیوں کو ایک لاکھ روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت انجینئر خرم دستگری نے بتایا ہے کہ بیرون ملک 61پاکستانی مشنز کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری کرنے کی سہولت موجود ہے۔ بیرون ملک مشنز میں مشین ریڈایبل پاسپورٹس کے اجرا کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ اتھارٹی کے تحت بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریاں بنائی جائیں گی جبکہ کوالٹی کنٹرول کا سیکشن بھی بنایا جائے گا۔ خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لئے تقرریوں کا عمل جاری ہے جو نومبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ تمام ڈاکخانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے نچلی سطح تک ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر کو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کو مرحلہ وار کیا جا رہا ہے۔ وقفہ سوالات کے دوران ہی چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے اسلام آباد میں نیشنل لاء یونیورسٹی کے قیام سے متعلق معاملہ سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ کمیٹی ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرے جبکہ چیئرمین یہ معاملہ پارلیمان میں نہ آنے کے باوجود پارلیمان کو ذمہ دار ٹھہرانے پر متعلقہ حکام سے جواب طلب کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے گزشتہ روز سینٹ اجلاس کے دوران سابق صدر پرویز مشرف کا نام لینے سے روک دیا۔ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے وقفہ سوالات کے دوران ایک موقع پر سابق صدر پرویز مشرف کا نام لیا تو چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف آمر تھا اس کا پارلیمنٹ میں نام نہ لیا جائے۔ سابق سی آئی اے اہلکار ایڈورڈجوزف سنوڈن کی جانب سے پاکستان کے مواصلاتی ڈیٹا کی جاسوسی کے حوالے سے بیان پر سینیٹر شاہی سید کی تحریک التواء پر حکومت کی جانب سے جواب نہ آنے پر چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاملہ متعلقہ کمیٹی کو ارسال کر دیا اور 10نومبر کو رپورٹ طلب کرلی۔ سینٹ میں خیبر پی کے حکومت کی طرف سے کئے گئے مطالبات اور سینیٹر حاجی سیف اللہ بنگش کے بیٹے کی گرفتاری کے وقت ان کے اہل خانہ کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے رپورٹس پیش کر دی گئیں۔ قبل ازیں سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینٹر کریم خواجہ نے کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی شیوسینا بن چکی ہے۔ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں میں طالبات کو زبردستی کرکٹ کھیلنے سے منع کرنے کا نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے غنڈوں نے کرکٹ کھیلنے والی لڑکیوں کو مارا پیٹا مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے غنڈوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے لڑکیوں کو کرکٹ نہ کھیلنے پر راضی کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات یہ تنظیم لاہور اور خیبرپی کے میں بھی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ہندوستان کی شیوسینا کا ذکر کرتے ہیں تو پاکستان کی شیوسینا اسلامی جمعیت طلبہ کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ ایوان بالا میں سینیٹر راحیلہ مگسی اور سینیٹر ثمینہ عابد سمیت کئی ارکان کے سوالات ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں لئے جا سکے۔ چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ رخصت طلب کرتے وقت مصروفیت کی وضاحت کیا کریں۔ وفاقی وزیر برائے بندرگاہیں و جہازرانی کامران مائیکل نے کہا ہے کہ گوادر کے لئے تمام سرمایہ کاری چین سے آرہی ہے۔ وقفہ سوالات کے دوران ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور عثمان کاکڑ کے سوالات کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی اور سنگاپور پورٹ اتھارٹی انٹرنیشنل کے درمیان 40 سالہ لیز کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ بعد ازاں سنگاپور اتھارٹی نے اپنے حقوق 2013ء میں چینی کمپنی کو منتقل کردیئے۔