مخالف سیاسی جماعتوں نے عمران خان کی پگڑی سنبھالی
ہم کبھی کبھار ایسے فرد کے بارے میں سنتے ہیں جس کیلئے کہا جاتا ہے کہ ’’اُس سے دامن بچانا ہی بہتر ہے‘‘۔ پاکستان تحریک انصاف کے کھلنڈروں کا سیاسی مزاج اس محاورے پر پورا اترتا تھا۔ اگر کسی نے پی ٹی آئی سے اختلاف کیا یا ہاں میں ہاں نہ ملائی تو اُسکی خیر نہیں ہوتی تھی۔ سوشل میڈیا پر اُس کیلئے ایسے ایسے سٹیٹس اپ لوڈ کئے جاتے جن کو پڑھ کر غلاظت کے ڈھیر بھی کم لگتے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن اپنے رہنمائوں کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے گزشتہ دنوں تین نومبر کو پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کا جواب دے کر دیا۔ نومبر کی 3تاریخ پاکستان میں آزادی صحافت اور آزادی اظہارِ رائے پر پابندی کی سیاہ تاریخ ہے جب جنرل پرویز مشرف نے 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگاکر تمام بنیادی حقوق معطل کردیئے تھے۔ عمران خان نے بھی3نومبر 2015ء کو آزادی صحافت کی پامالی کی سالگرہ منائی۔ عمران خان اپنی سابقہ اہلیہ ریحام خان سے طلاق کے بعد پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے تو اس حوالے سے سوال پوچھا جانا قدرتی امر اور صحافتی ضرورت تھا۔ ایک صحافی نے کچھ اِس طرح کا سوال کیا کہ ’’آپ مردم شناس شخصیت ہیں۔ پھر آپکی ذاتی زندگی اور سیاسی زندگی میں آنیوالے لوگوں کو پہلے سے کیوں نہیں پہچان سکتے؟‘‘ جہاں سوال پوچھنا کسی بھی صحافی کا حق ہوتا ہے وہیں سوال کا جواب نہ دینا لیڈر کا حق ہوتا ہے۔ وہ جواب میں ’’نوکمنٹس‘‘ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ دنیا بھر کی مہذب روایت ہے لیکن عمران خان اس سوال کے جواب میں سیخ پا ہوگئے اور صحافی کو اُس کی اوقات یاد دلا کر کہنے لگے کہ ’’ایسا سوال پوچھنے پر شرم آنی چاہئے‘‘۔ بیشک اِس وقت عمران خان کی ذہنی حالت ڈسٹرب ہے لیکن ایک لیڈر کے طور پر لیڈر کو اپنے ذاتی ڈسٹرب حالات میں بھی اپنے آپ کو کمپوزڈ یعنی مناسب حالت میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ لیڈر اور عام فرد میں یہی بنیادی فرق ہے۔ اُنکے کچھ روایتی حامی عمران خان کو اس ایشو پر تنقید سے بچانے کیلئے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمارے کئی مشاہیر کی ازدواجی زندگیاں بھی ٹھیک نہیں تھیں لیکن وہ ایک کامیاب لیڈر تھے‘‘۔ عمران خان اور ریحام خان کا معاملہ ذاتی نوعیت کا ہے لیکن اس پر اکثریت کی رائے یہی ہے کہ جب سے دنیا میں تاریخ لکھی گئی اُس وقت سے اب تک اہم شخصیات کی ذاتی زندگیاں دراصل پبلک زندگیاں ہوتی ہیں۔ اُنکے جوتے، کپڑے، ہیئر سٹائل، شادیاں، بیویاں، طلاق، بچے اور رشتے داریاں وغیرہ سب کی سب پبلک گفتگو کا حصہ ہوتی ہیں۔ ہم اگر عمران خان کی مذکورہ ذاتی لائف کو نہ بھی چھیڑیں تب بھی اس ایشو پر کچھ نکات بہت اہم ہیں جو عمران خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اگر عمران خان متاثر ہوئے تو پی ٹی آئی متاثر ہوگی اس لئے ان ضروری پہلوئوں کو دیکھنا ہوگا۔ ریحام خان کے حوالے سے پاکستان کے ایک سینئر صحافی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ’’خفیہ ایجنسیوں کے پاس اطلاعات تھیں کہ ریحام خان عمران خان پر ہاتھ اٹھاتی تھیںاور وہ عمران خان کو زہر دیکر پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتی تھیں‘‘۔ چونکہ یہ اطلاع ایک معتبر اور سینئر صحافی کی طرف سے آئی ہے اور انہوں نے خفیہ ایجنسیوں کا نام بھی لیا ہے لہٰذا اس بات کی تصدیق یا تردید ہونا لازمی ہے۔ کیا اس انکشاف کا مقصد یہ تو نہیں کہ عمران خان کے سیاسی امیج کو بچایا جائے جو اپنی بیویوں کو باربار طلاق دینے سے خراب ہو رہا ہے؟ دوسری طرف ریحام خان کو طلاق کے ایشو پر کوئی بیان نہ دینے پر راضی کرنے کیلئے بہت ہی ہائی پروفائل اور مہنگی کوشش کی جارہی ہے۔ پہلے تو یہ اطلاعات آئیں کہ انہیں کروڑوں روپے اور فلیٹ وغیرہ دیا گیا ہے۔ پھر خبر آئی کہ جونہی ریحام خان برطانیہ پہنچیں اُنکے پاس عمران خان کے بہت ہی قریبی دوست زلفی بخاری پہنچ گئے اور تقریباً تین گھنٹے تک ان سے ملاقات کرتے رہے۔ پھر وہ ریحام خان اور انکے تینوں بچوں کو اپنی گاڑی میں کہیں لے گئے۔ زلفی بخاری اسکے بعد اگلے ہی دن برطانیہ سے سیدھا بنی گالہ اسلام آباد پہنچے۔ وہ ریحام خان سے ہونیوالے مذاکرات کے بارے میں عمران خان کو فون پر بھی بتا سکتے تھے لیکن انہوں نے بذاتِ خود آنے کو ترجیح دی۔ کیا انہیں اپنا فون ٹیپ ہونے کا خطرہ تھا؟ کچھ ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ ریحام خان کو چپ سادھ لینے کے عوض چوہدری سرور انہیں برطانیہ کی سیاسی جماعت ’’لیبر پارٹی‘‘ میں کوئی عہدہ بھی دلوا سکتے ہیں۔ مذکورہ باتیں درست ہیں یا نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کون سا راز ریحام خان کے پاس ہے جس نے عمران خان اور اُنکے ساتھیوں کو نفسیاتی طور پر پریشان کیا ہوا ہے؟ ریحام خان اور عمران خان کی طلاق کا معاملہ خود بخود تشویش ناک اس لئے بنتا جارہا ہے کہ جب عمران خان نے جمائما خان کو طلاق دی تو اُس وقت اتنی لے دے نہیں ہوئی تھی۔ ریحام خان بیوی کی حیثیت سے عمران خان کے پاس رہیں مگر وہ بیوی ہونے کیساتھ ساتھ ایک جہاندیدہ خاتون بھی تھیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے عمران خان یا انکی سیاست کے حوالے سے کچھ خفیہ معلومات حاصل کرلی ہوں۔ کیا اس بات کا بھی کوئی امکان ہے کہ ریحام خان عمران خان کے بچے کی ماں بن سکتی ہیں؟کیا مسلمان ہونے کے ناطے ریحام خان کیلئے عدت ضروری نہیں ہے؟ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف وغیرہ نے اپنے کارکنوں سے کہا ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کی طلاق کے ایشو پر کوئی بات نہ کریں۔ عمران خان نے سیاست میں جنکی پگڑیاں اچھالی تھیں انہی سیاسی جماعتوں نے عمران خان کی پگڑی سنبھالی ہے۔