بلدیاتی الیکشن اور ہتھکڑیاں
کیا تعریف کریںبلدیاتی الیکشن کی۔ لوگ تبصرہ کر رہے ہیں کہ بہت اچھا الیکشن ہوا ہے۔ فیئر اینڈ لولی الیکشن۔ صرف پندرہ سولہ بندے مرے ہیں۔ کہنے والے پندرہ سولہ بندوں کے قتل کو قتل نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں حسرت ہے کہ اتنے کم کیوں مرے ہیں۔ دو چار سو بندے مرنے چاہئیں تھے۔ پاک سرزمین پر خون کی ارزانی ہے۔ کبھی دہشت گردی، کبھی دھماکے، کبھی ڈاکے، کبھی لڑائی جھگڑے، کبھی ٹارگٹ کلنگ، کبھی درندگی، کبھی زلزلہ، کبھی سیلاب۔ خون بہنے میں جس دن ناغہ ہو جائے اس دن ریلوے یا بسوں کا حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ یہ کیا تضاد ہے کہ حکومتیں الیکشن کے دوران اسلحہ لہرانے اور اسکی نمائش پر پابندیوں کے بڑے بڑے اشتہارات بھی چھپواتی ہیں اور جب الیکشن کا دن آتا ہے تو اسلحہ چلانے میں ذرا دیر نہیں کی جاتی۔ بندے مارنے والوں سے پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ پاکستان چلانے کےلئے اسلحہ چلایا ہے۔ بے گناہوں کے خون کا حساب تو یہاں کبھی نہیں لیا جائیگا۔ صرف یوم الحساب پر ہی حساب ہو گا۔ خون بہانا بند نہ کرو، بندے مارتے جاﺅ۔ مرنے والوں کی تعداد گنتے جاﺅ۔ انصاف کے دعوﺅں کے ڈھول پیٹتے جاﺅ اور بس۔
ہم لوگوں کا تعلق درس و تدریس سے ہے۔ ہمارا طبقہ بچوں کو روزانہ کتابیں پڑھاتا ہے۔ الیکشن سے پہلے چُن چُن کر قوم کے معماروں یعنی استادوں کو یوں پکڑا جاتا ہے جیسے ویگنیں پکڑی جاتی ہیں۔ کوئی بیمار لاچار یا گھریلو مسائل میں گھرا استاد ڈیوٹی کٹوانے کی جرا¿ت کرے تو اسکے عذر پر کان دھرنے کے علاوہ اسے نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ ان بلدیاتی الیکشنوں سے پندرہ بیس دن قبل ہمیں ہماری ڈیوٹیوں سے آگاہی کے تحریری اور ٹیلی فونک پیغامات ملنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ پیغامات صرف اداروں ہی میں موصول نہیں ہوئے تھے بلکہ ہمارے گھروں میں بھی بار بار ٹیلی فون کیے جاتے تھے کہ آپ کہیں ڈیوٹی کے خوف سے گھر بار اور بال بچے چھوڑ کر تو نہیں بھاگ گئے۔ ان بلدیاتی الیکشنوں میں ہماری تصویریں اور شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں پہلے ہی جمع کر لی گئیں۔ انتیس اکتوبر کی رات کو ٹیلی فون آیا۔ صبح سات بجے ٹاﺅن ہال لاہور پہنچ جائیں۔ ہم نے پوچھا کہ سارا دن اور ساری رات سامان لینے کیلئے پڑی ہے۔ اتنی جلدی کیوں بلایا جا رہا ہے؟ جواب ملا۔ طالوت صاحب سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ صبح ہم تیار ہو کر ٹاﺅن ہال پہنچے تو لوگوں کی آمد جاری تھی۔ ہم اپنے کولیگز کے ساتھ بیٹھ گئے اور طالوت صاحب کے افکارِ عالیہ کا شدت سے انتظار کرنے لگے۔ لیکن تقریر تو درکنار ہم طالوت صاحب کی زیارت سے بھی محروم رہے۔بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم والامعاملہ دیکھنے میں آ رہا تھا۔ٹوکن جاری کیے جا رہے تھے۔ ایک آواز آئی۔ ٹوکن سے ذرا بچ کے۔ ہم ٹوکن سے کیسے بچ سکتے تھے۔ ہم پر طالوت صاحب کچھ زیادہ ہی مہربان تھے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ تمہارے نام کی وائر چل رہی ہے۔ تم رات اپنے پولنگ سٹیشن پر بسر کرو۔ طالوت صاحب کا حکم ہمارے لیے عزرائیل سے کم نہیں تھا۔ ہم پولنگ سٹیشن پہنچ گئے۔ دوسرے دن الیکشن کروایا۔ جب رزلٹ تیار کرنے کے بعد ہم پولیس عملہ کی حفاظت میں ٹاﺅن ہال پہنچے تو قیامت کا سماں تھا۔ گزشتہ کئی دنوں کی نفسیاتی تکان اور دو دن کی جسمانی تھکاوٹ کے آثار ہر استاد کے چہرے پر ہویدا تھے۔ یہاں یہ عالم تھا کہ ٹاﺅن ہال کا عملہ ٹوکن دیتا جا رہا تھا لیکن سامان واپس لینے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ جب کئی گھنٹے گزر گئے تو استادوں نے نعروں کی صورت میں احتجاج شروع کر دیا۔ ایک خاتون پروفیسر نے بلند آواز میں کہا ”میں ایک خاتون ہوں۔ کیا ہم خواتین اسٹیل کی بنی ہوئی ہیں۔ گھر بار چھوڑے ہوئے ہمیں دوسرا دن ہو گیا ہے۔ خدا کا خوف کرو۔ پھر اس نے کالج یونین کے خوب لتے لیے۔ ایک پروفیسر صاحب نے کہا الیکشن کروانے والا عملہ بلی کی طرح پرسکون ہے اسے علم ہے کہ شکار کو پنجے مار کر پکڑنا ہے اور اسے تڑپتا پھڑکتا بھی دیکھنا ہے۔ مزدور جب سارا دن مزدوری ختم کرکے گھر جانے لگتا ہے تو مالک اسکی تذلیل شروع کر دے تو اس پر کیا بیتے گی۔ اساتذہ جب تھک ہار کر سامان واپس کرنے آتے ہیں تو انکے ساتھ غلط زبان استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ پروفیسر صاحب جب رزلٹ جمع کروانے گئے تو ایک صاحب نے کہا کہ آپ کا رزلٹ غلط ہے۔ آپ کو ہتھکڑی بھی لگ سکتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے کہا میں استاد ہوں۔ کل کو آپ ڈیوٹی لگا دینگے کہ ایک پہیے پر سائیکل چلائیں تو کیا ہم وہ چلانا شروع کر دینگے۔ ہم سے تدریس کا کام لیں۔ مداریوں کے پاس ایک بکرا، ایک کڑا اور سانپ اور ریچھ بندر وغیرہ ہوتے ہیں۔ وہ کڑے میں سے بکرا گزار کر دکھا دیتے ہیں۔ اہل علم تو تعلیم و تدریس کا کام ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارے پروفیسر خالد رفیع صاحب بہت بھلے اور بیبےآدمی ہیں۔ انہوں نے ہمارے ایک پروفیسر صاحب اور طالوت صاحب کو ناشتے پر بٹھا دیا۔ الیکشن عملے کو چاہیے تھا کہ اساتذہ کرام کے مقام و احترام کو ملحوظ رکھیں اور ان کیلئے آسانیاں فراہم کریں۔ ٹاﺅن ہال کے عملے کو تجاوزات ہٹاتے ہوئے پرانی سائیکلیں، ریڑھیاں اور کاٹھ کباڑ اٹھانے کا بہت تجربہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لیکچراروں، اسسٹنٹ پروفیسروں اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کو تجاوزات سمجھ کر ہی ہینڈل کیا ہے۔ خدا کے واسطے اس مظلوم طبقے پر رحم کریں۔