سوئی سدرن ناردرن دیوالیہ ہونے کے قریب خسارہ 53 ارب روپے سے بڑھ گیا
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) قو می اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کہا ہے کہ گیس چوری کرنے والے اور سوئی سدرن کے افسر، ملاز مین ارب پتی بن گئے ہیں ان چوروں کو کوئی پکڑے والا نہیں ہے کرپشن عروج پر چل رہی ہے۔ اجلاس چیئرمین خورشید احمد شاہ کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت پٹرولیم وقدرتی وسائل کے2009-10-11ء کے بقیہ آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا(پی اے سی)نے ملک بھر میں گیس چوری اور ریکوری کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے ہمارا کلچر ایسا بن چکا ہے کہ جو بل اور پورا ٹیکس دیتا ہے اس پر مزید بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ ادارے محسوس کریں کہ قوانین میں کوئی سقم ہے تو پی اے سی انہیں دور کرنے کیلئے پوری مدد کرے گی۔ صورتحال یہی رہی تو لوگ تنگ آکر ادائیگیاں بند کردیں گے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2010-11ء کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ شہر میں یو ایف جی کی شرح غیر منصفانہ ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا نے کہا کہ یو ایف جی کے حوالے سے اعدادوشمار فرضی ہیں۔ پی اے سی نے سٹڈی کا حکم دیا ہے۔اس کے بعد حقیقی صورتحال سامنے آئے گی۔آڈٹ حکام نے کہا کہ 5 ہزار 7 سو میٹرک ٹن گیس چوری ہوئی جس میں سے صرف ایک ہزار میٹرک ٹن کا سراغ لگایا جا سکا۔ بینچ مارک سٹڈی رپورٹ آنے تک اسی طرح کے آڈٹ اعتراضات موخر کئے جائیں۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ سوئی سدرن شہری علاقوں سے گیس کی چوری اور ریکوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ شہری علاقوں میں تو اس صورتحال کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔سوئی سدرن کے سی ایف او نے بتایا کہ 2.63 ملین ہم نے ریکور کیا تھا۔ہم نے ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں۔ باقاعدہ چھاپے مارے جاتے ہیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ یہ تو وہ چور ہیں جو سامنے ہیں۔ ڈھونڈنا تو اس کو پڑتا ہے جو سامنے نہ ہو،سرکاری رقم کی ریکوری اور چوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ یہ سیاستدانوں کیلئے بھی امتحان ہوگا۔ ریکوری اور چوری کے سدباب کیلئے کام کی رفتار فاسٹ ٹریک پر لے جائیں ۔سوئی سدرن کے سی ایف او امین راجپوت نے کہا کہ ہم نے پولیس سٹیشن قائم کیا ہے۔ میاں عبالمنان نے کہا کہ گیس چوری روکنے کیلئے ہر علاقے کی مین لائن پر بڑے میٹر لگائے جائیں۔ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں دو ماہ سے نہیں تھے مگر ان کے گیس کے بل اس شرح سے آتے رہے ہیں۔ شفقت محمود نے کہا کہ خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے بورڈز ہوتے ہیں اگر ان کو کام کرنے نہ دیا جائے تو ان کی خود مختاری کس کام کی ہے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ ہر کام آئین اور قانون کے تحت ہونا چاہیے۔ سیدنویدقمر نے کہا کہ خود مختار اداروں کو وزارت کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا نے کہا کہ تعیناتیوں کے حوالے سے پیشگی اختیار سمیت تمام تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔ اجلاس میں دونوں کمپنیوں کے ڈائریکٹوں نے بتایا پاکستان کی دو بڑی گیس کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی ناردرن دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہیں ان کمپنیوں کا یو ایف جی خسارے کاتخمینہ 53 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے اور صرف اٹھارہ ارب روپے کا بوجھ صارفین تک منتقل کیا گیا ہے۔ دونوں کمپنیوں کے ڈائریکٹرز نے انکشاف کیا کہ ان کی کمپنیوں کو شدید مالی مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا یو ایف جی خسارے کا دو تہائی چوری کی وجہ سے ہے باقی ماندہ متروک اور پرانے گیس پائپ لائن کی وجہ سے ہے۔ صرف بلوچستان میں یو ایف جی خسارہ 51 فیصد ہے۔ علاوہ ازیں پی اے سی نے وزارت پٹرولیم کو ہدایت کی پیٹرولیم کمپنیوں سے اٹھارہ کروڑ روپے کرایہ کی مدمیں فوری وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرایا جائے۔ وزارت پٹرولیم کے ڈی جی کو کمپنیوں سے رقوم کی عدم وصولی پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پی اے سی نے پی ایس او کو ہدایت کی ہے کہ پٹرولیم لیوی کی مدمیں 65 ملین روپے پیٹرول پمپ مالکان سے وصول کئے جائیں اس کا فائدہ عوام کو دیا جائے۔ کمیٹی نے حکم دیا کہ دیوان پٹرولیم کمپنی سے رائلٹی کی مدمیں 14 ملین فوری وصول کرکے قومی خزانہ میں یہ رقم جمع کرائی جائے۔ پی اے سی نے گیس رائلٹی کی مدمیں چار کمپنیوں سے چودہ ارب 73 کروڑ کی رقوم کی عدم ادائیگی پر بھی شدید غم اور غصے کا اظہار کیا۔ ان کمپنیوں میں او جی ڈی سی ایل ڈیڑھ ارب کی نادہندہ ہے اور ایم ڈی 143 ملین پی پی ایل 0.27 ملین جبکہ گورنمنٹ ہولڈنگ 0.57 ملین کی نا دہندہ ہے ان سے یہ رقم وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائی جائے۔ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں 24 ملین وصول نہیں ہوسکے پی اے سی میں مری گیس کمپنی‘ تلو کمپنی‘ پی پی ایل اور سوئی نادرن کمپنی کے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مدمیں وزارت پیٹرولیم کی تین ارب ستر کروڑ کی نادہندہ ہیں پارلیمانی کمیٹی نے ان سے یہ رقوم فوری ریکوری کی ہدایت کی ہے۔ اجلاس میں سوئی سدرن گیس میں خلاف قانون ویٹ میٹر کی جگہ ڈرائی میٹر خریدے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔ سوئی سدرن حکام نے کہاہے تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا مگر ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، آڈٹ حکام اس خریداری میں سوئی سدرن گیس کے 2منیجر اور 2جنرل ملوث تھ، جو ریٹائر ہو چکے ہیں، کمیٹی ممبر ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے کہا کہ یہ غیر قانونی طریقہ ہے، انکوائری کیوں نہیں ہوئی، ممبر کمیٹی سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ اشتہار گھوڑے کا دیا اور گدھا خرید لیا گیا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی اور اب یہ اعتراض ہے اور ذمہ داران بھی ریٹائر ہو چکے ہیں۔ کمیٹی ممبر شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ریٹائر ہو گئے ہیں تو پھر بھی کارروائی ہونی چاہیے، کوئی بھی اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل کرپشن کرے اور اسے چھوڑ دیا جائے۔ اجلاس میں وزارت پٹرولیم و قدرت یوسائل کے سال 2010-11ء کے آڈٹ اعتراضات پیش کئے گئے۔