ایمرجنسی کی توثیق نہ کرکے سینٹ نے ناقابل فراموش مثال قائم کی رضاربانی
3نومبر 2007ء پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن ہے اس روز ایک ’’فوجی ڈکٹیٹر ‘‘ نے دوسری بار آئین شکنی کی ،چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی جنہوں نے بحالیء جموریت کیلئے جدو جہد کی ہے وہ اس دن کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں ،گذشتہ روز وہ چیف جسٹس آف پاکستان ظہیرانور جمالی کی سینیٹ میں آمد کی وجہ سے ’’ یوم سیا ہ‘‘ منا نہ سکے سوانہوں نے4نومبر 2015ء کو 3نومبر2007ء کو آئین شکنی کے مرتکب کو یا د رکھا چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ دن ہے جب ایک آمر نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تو پہلی بار پارلیمنٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں‘ وکلاء اور سول سوسائٹی نے اسے ماننے سے انکار کیا اور طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت بحال کرائی گئی ‘ چیف جسٹس کا سینٹ میں آنا اداروں کے درمیان تعلقات کی بہتری اور ایک جمہوری حکومت کا دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرنا اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کا مظہر ہے۔ سینٹ کا اجلاس ملتوی کرنے سے قبل چیئرمین سینٹ نے کہا کہ گزشتہ روز 3نومبر2015ء تھا سینیٹ کے طویل اجلاس اور پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اجلاس سمیت غیر ملکی سفارتی وفد کے ساتھ مصروفیات کی وجہ سے تین نومبر کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوسکی 3نومبر 2007ء کو ایک ’’آمر‘‘ نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی ہمیں فخر ہے کہ ہم پارلیمنٹ کا حصہ تھے اور اس اقدام کی توثیق نہیں کی تھی پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی بار ملٹری ڈکٹیٹر کے اقدام کی توثیق نہیں کی گئی وکلائ‘ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے اس اقدام کے خلاف تحریک چلائی اور آمر وقت کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میاں رضا ربانی ڈکٹیٹر شپ کے اس حد تک خلاف ہیں انہوں ایک فوجی ڈکٹیڑ سے نہ صرف وزیرکا حلف لینے سے انکار کر دیا تھا بلکہ ان کی ٹیم کا حصہ رہنے والوں کے ساتھ کابینہ کا حصہ بننے سے آصف علی زرداری سے معذرت کرلی تھی رضاربانی سینیٹ کے اجلاس میں سابق صدر پرویز مشرف کا نام سننے کے لئے بھی تیا ر نہیں انہوں نے ایوان میں پرویز مشرف کا نام لینے پر وزیرمملکت سائرہ افضل تارڑ کو ڈانٹ پلادی اور کہا کہ’’ پرویز مشرف آمر تھا آپ نے اس کا نام کیوں استعمال کیا،پرویز مشرف کا نام جمہوری مثالوں میں استعمال نہ کیا جائے‘‘ ۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احس کو وزیر اعظم سے کیا پر خاش ہے وہ میاں نواز شریف کے خلاف بات کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے چیئرمین سینٹ نے اعتزاز احسن کی جانب سے وزیراعظم میاں نواز شریف کا 1992 سے94ء تک ٹیکس ریکارڈ ایف بی آر سے غائب ہونے بارے نکتہ اعتراض پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ دنوں میں اس بارے ایوان کو حقائق سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ میرے نکتہ اعتراض کے جواب میں حکومت کی طرف سے ایل پی جی کے کوٹے کا ذکر کیا جائے گا، وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنے فرنٹ لائن پر کھیلنے والے سیاسی کھلاڑی مشاہد اللہ خان کو گرائونڈ کر دیا ہے ان سے بہتر انداز میں میاں نواز شریف کا شاید کوئی کھلاڑی دفاع کر سکتا ہے ،چوہدری اعتزاز احسن کو صرف مشاہداللہ خان ہی ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے ہیں ۔چیئرمین سینٹ نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب نہ ہونے کے حوالے سے تحریک التواء پر حکومتی موقف مسترد کر دیا ہے اور اس معاملہ کو سینیٹ کی خارجہ امور کی مجلس قائمہ کے سپرد کر دیا اور مجلس قائمہ سے اس ایشو پر ایک ماہ کے اندر رپورٹ طلب کرلی ‘ فرحت اﷲ بابر ،سینیٹر عثمان کاکڑ نے بھی گفتگو کی، سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے قواعد و ضوابط کے چیئرمین سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے سینیٹر حاجی سیف اللہ بنگش کے بیٹے کی گرفتاری کے وقت ان کے اہلخانہ کے ساتھ نیب کی بدسلوکی اور سیکرٹری وزارت تجارت کی طرف سے رپورٹ کی عدم فراہمی پر ایوان کے استحقاق مجروح ہونے اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری مقامی حکومت کا بل 2015ء سینیٹ میں منظور نہ ہونے کے باوجود دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے حوالے سے سینیٹر سعید غنی کی تحریک استحقاق پر رپورٹ ایوان میں پیش کر دی۔