وزیر اعظم کی زلزلہ امدادی مہم
اسے وزیر اعظم کی فرض شناسی سے زیادہ انسان دوستی پر تعبیر کیا جانا چاہئے کہ وہ زلزلہ زدگان کے دکھوں میں شریک ہیں۔ان کامنصب اس بات کاہر گز متقاضی نہیں کہ وہ خود مارے مارے پھریں ۔ اس کام کے لئے اول تو خیبر پی کے حکومت موجود ہے، پھر درجہ بدرجہ صوبائی افسر شاہی کا بھی فرض منصبی ہے کہ وہ اپنے دفتروں سے باہر نکلیں، پہلے تو سروے کریں اور پھر امدادی پیکیج مستحقین تک پہنچائیں۔صوبائی حکومت جس پارٹی کے پاس ہے ،ا سکے چیئرمین عمران خان بھی خانگی امور سے چھٹکارا پا ئیں تو اپنا کردار ادا کریں، پھر ان کی پارٹی میں درجنوں کھرب اور ارب پتی ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی تمام زلزلہ زدگان کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے مگر یہ لوگ حلقہ 122 لاہور اور بلدیاتی انتخابات کی بد نصیبی کی بحثوں میں نہ الجھیں تو ان کے پاس بھی کافی وقت ہے کہ وہ زلزلہ زدہ علاقوں میں جائیں، کسی کی مالی اعانت نہ بھی کر سکیں تو ہمدردی کے دو بول بھی ان کے لئے کافی ہیں، میںجانتا ہوں اور قصیدے لکھتا رہتا ہوں کی عبدالعلیم خان انسانی فلاح میں سرگرم عمل ہیں اور کروڑوں خرچ کرتے ہیں، جناب چودھری محمد سرور بھی عالمی سطح پر بچوں کی تعلیم کے لئے 25 ڈالر کی ایک ا سکیم سے وابستہ ہیں۔ اس طرح عام معاشرے میںبھی فلاحی کام کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ، جماعت اسلامی کی الخدمت ہے، لشکر طیبہ اور جماعت دعوہ سے منسوب فلاح انسانیت ہے، ایدھی صاحب تو کمال ہی کرتے ہیںا ور ہمارے ملک ریاض صاحب بھی دل کھول کر خرچ کرتے ہیں، اس طرح کے معاشرے اور ماحول میں وزیر اعظم کو کھنڈرات بنی بستیو ںمیںروز روز گھومنے کی ضرورت تو نہیں تھی مگر شاید انہوںنے حضرت عمر ؓ کا یہ قول سن رکھا ہے کہ دریا کے کنارے ایک کتا بھی بھوک اور پیاس سے ہلاک ہو جائے تو قیامت کے روز ان کی پرسش ہو گی، ا سلئے وزیر اعظم خود میدان میںنکل کھڑے ہیں، یہ ان کی مہربانی ہے ا ور انتہائی قابل ستائش اقدام بھی۔میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مصیبت زدہ علاقے ان دنوں شدید سردی، بارش اور برفأنی طوفان کی لپیٹ میں ہیں ، اور ان علاقوں کی طرف منہ کرنا جان جوکھوںمیں ڈالنے کے مترادف ہے۔ایک وی وی آئی پی کی نقل وحرکت کے لئے یہ موسم ہر گز سازگار نہیں اور میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم ان موسمی مشکلات کی وارننگ کو خاطر میںنہیں لاتے ہوں گے، میںنے ان کے ساتھ ڈھاکہ سے لاہور کا ایک فضائی سفر کیا تھا، ہو ابازی کا کوئی قاعدہ قانون اس سفر کی اجازت نہیں دے سکتا تھا، خلیج بنگال کا خطہ قیامت خیز طوفان کی لپیٹ میں تھااور یقین مانیئے کہ ہمارا جہاز آدھ گھنٹے سے زیادہ عرصے تک تھرتھراتا رہا، سارے مسافر دل ہی دل میں کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے ، ایک سیکرٹری صا حب کی بیگم نے تو خواب آور گولیاں مانگ لی تھیں اور اگر کسی کا چہرہ مطمئن تھا تو وہ وزیر اعظم نواز شریف کا تھا، پتہ نہیں کہ وہ کس مٹی کے بنے ہیں، طوفانوں کو بھی خاطر میں نہیںلاتے اور بڑے سے بڑے خطرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔
یہ میںجو کچھ لکھ رہاہوں یہ وزیر اعظم کی انسانی خوبیاں ہیں، ان کی حکومتی خامیوں کو میں کبھی معاف نہیں کرتا۔مگر جہاں کسی کی توصیف لازمی ہو تو بخیلی نہیںکرنی چاہئے۔
وزیر اعظم نے پہلے تو اپنا بیرونی دورہ مختصر کیا اور لندن سے فوری طور پر پاکستان واپس آ گئے، پھر کوئی آرام کئے بغیر وہ ہر روز زلزلہ زدہ علاقوںمیں آ جا رہے ہیں،ان کا زور اس بات پر ہے کہ لوگوں کوجو بھی امداد ملنی ہے وہ موسم میں شدت پیداہونے سے پہلے پہلے مل جائے۔ ان کی خواہش نیک ہے مگر ا س میں صوبائی حکومت کو بھی ان کے ساتھ بھرپور تعاو ن کرنا چاہئے، وزیر اعظم نے تودل بڑا کیا اور ہر دورے میں وہ پرویز خٹک کو ساتھ رکھتے ہیںمگر پرویز خٹک صاحب بھی فراخدلی کا مظاہرہ کریں اور اپنی مشینری کو چوکس اور متحرک کریں تاکہ متاثرین کی فہرستیں جلد سے جلد بنیں اور ان کے مطابق چیک تیار ہو کر متعلقہ لوگوں میں تقسیم ہو جائیں۔گھر گرنے میں ایک منٹ لگامگر اس کی تعمیر نو کا کام بے حد کٹھن ہے خاص طور پر جب یہ علاقے برفباری ا ور بارشوںکی وجہ سے ناقابل رسائی ہو گئے ہیں، تعمیر ومرمت کے لئے سیمنٹ ، سریا اور دیگر ضروری سامان تو سڑکوں کے راستے پہنچنا ہے مگر یہ سب بند ہو ر ہی ہیں ، اس وقت بھی خبر آئی ہے کہ لواری ٹاپ بند ہو چکی ہے اور چترال کا زمینی رابطہ باقی ملک سے کٹ چکا ہے۔
وزیر اعظم کے سینے میں ایک دل دھڑکتا ہے جو گوشت پوست کا بنا ہے، وہ فولاد کا بزنس ضرور کرتے ہیں مگر دل فولادی نہیں ، ہاں،ان کے عزائم فولادی ہیں۔ وزیر اعظم بنیادی طور پر ایک رحمدل انسان ہیں ، کچھ لوگوںکے لئے انہوں نے اپنے دل کے دروازے ضرور بند کئے ہوں گے مگرعام مصیبت زدہ انسانوں کے لئے ان کی تڑپ دیدنی ہے۔ایک زمانے میں وہ ریپ کی شکار خواتین کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لئے ان کے آنگن میںجا پہنچتے تھے، بہت اعتراضات ہوتے تھے کہ ایک تو خاتون کی عزت گئی ، اوپر سے اس کی ٹی وی پر تشہیر ہو گئی، وہ تو گھر کی رہی نہ گھاٹ کی، مگر ماہرین نفسیات کاکہنا ہے ایک حکمران ان دکھیاروںکے ساتھ جاکھڑا ہو تو اگلاشخص اپنی مصیبت بھول جاتا ہے ا ور اسے ڈھارس بندھتی ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کرنے والا کوئی توہے۔ محمد بن قاسم بھی تو ایک ا یسی ہی خاتون کی پکار پر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے دیبل پہنچا تھاا ور پھر برصغیر میں مسلم حکومت کی داغ بیل پڑ گئی، ا س محمد بن قاسم کو بھیجنے والا ایک ظالم تریں حکمران یوسف بن حجا ج تھا مگر یہ تو کہیںنہیں لکھا کہ ایک ظالم اور جابر شخص کسی بھی صورت انسان دوستی کا مظاہر ہ نہیں کر سکتا۔ میاںنواز شریف تو ایک منتخب حکمران ہیں۔انہیں اپنی رعایا کا خیال نہیںہو گا تو اور کسے ہو گا۔
میں یہاں ایک شہادت ا ور دیتا ہوں، نوازشریف اور ان کاسارا خاندان جدے میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا، لاہور میں ان کے گھروں پر قبضہ کر کے اولڈ ہوم قائم کر دیئے گئے تھے اور رائے ونڈ میںان کے بہت بڑے ہسپتال میں خاک اڑ رہی تھی، ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر نے ارد گرد کی آبادیوںمیں پمفلٹ پھینکے کہ جس کسی کو آنکھوں کا آپریشن کروانا ہو تو ہسپتال کی گاڑی اسے گھر سے لے جائے گی ا ور آپریشن کے بعد واپس بھی چھوڑ جائے گی، میرے پا س ان دنوں کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی تک نہیں تھی اور میرے ایک ضعیف بزرگ آنکھوںکے مرض میں مبتلاتھے۔ ہم نے شریف ہسپتال فون کیا، ایک گاڑی آئی، اور دودن بعد انہیں واپس چھوڑ گئی۔ اس بات کو تیرہ برس ہو چلے ہیں آج بانوے سالہ بزرگ ماشااللہ اخبار بغیر عینک کے پڑھتے ہیں اور ہر خبر کا بقیہ بھی۔
اس خاندان سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کے دل میں زلزلہ زدگان کی مصیبت کے وقت ، چین سے بیٹھنے کا خیال کیسے آ سکتا ہے۔