غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی روکنے کا معاہدہ ختم کرنے کیلئے 6 ماہ کی مدت ضروری ہے: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی) پاکستان اور یورپ کے درمیان ’ایگریمنٹ وِد پاکستان آن ری ایڈمیشن‘ نامی معاہدہ سات اکتوبر 2010ء کو طے پایا تھا۔ یورپی یونین کی ویب سائٹ پر موجود ڈنمارک اور آئرلینڈ اس معاہدے میں پارٹی نہیں۔ جس کے مطابق یورپی یونین اور پاکستان دونوں اس بات کے پابند ہیں کہ اگر کوئی شہری یورپی یونین یا پاکستان میں رہائش رکھنے کی شرائط پوری نہیں کرتا تو اس شخص کو اس کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔ اس معاہدے میں اس شخص کی شہریت کا تعین کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس ایسی دستاویزات نہیں ہیں جن سے اس کی شہریت کا تعین ہو سکے تو پاکستان کا سفارت خانہ اس شخص سے انٹرویو کے بعد اس کی شہریت کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گا۔ تاہم اس معاہدے میں پاکستان نے قبول کیا ہے وہ کسی اور ملک کے شہری اور بے وطن شخص کو بھی واپس لینے کے لیے تیار ہے اگر مندرجہ ذیل شرائط پوری ہوتی ہیں: 1) اس شخص کے پاس پاکستان کا ویزا یا حکومتِ پاکستان کی جانب سے پاکستان میں رہائش رکھنے کا اجازت نامہ ہو۔ 2) پاکستان سے براہ راست یورپی یونین میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا ہو۔ معاہدے کے مطابق یہی شرائط یورپی یونین کے شہریوں پر بھی لاگو ہوں گی جو پاکستان میں میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی قوانین کے ماہر اور سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ کوئی کسی ملک کو کسی شخص کو ملک بدر کرنے سے نہیں روک سکتا۔ ’کوئی بھی ملک صرف اپنے شہری کو ملک بدر نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں رہائش لیے ہوا کوئی شخص جو اس ملک کا شہری نہیں ہے اس کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین سے ڈی پورٹ ہوا شخص ایک کمرشل فلائٹ پر پاکستان آتا ہے تو حکومت پاکستان اس شخص کو آنے سے کیسے روک سکتی ہے۔‘ اس معاہدے میں یہ کہا گیا ہے کہ یورپی یونین اور پاکستان میں سے کوئی بھی ملک دوسرے ملک کو مطلع کر کے اس معاہدے کو ختم کر سکتا ہے۔ تاہم معاہدے کے مطابق جب اس معاہدے کو ختم کرنے کے حوالے سے دوسرے ملک کو مطلع کیا جائے گا یہ معاہدہ اس کے چھ ماہ بعد ختم ہو گا۔ وزیر داخلہ نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ آیا پاکستان نے چھ ماہ قبل یورپی یونین کو مطلع کر دیا تھا یا نہیں۔