• news

شدت پسندی: المیوں کے ذمہ دار ولی خان، پاکستان کیخلاف جنگ کا آغاز کیا: بی بی سی

اسلام آباد (بی بی سی) پاکستان اور افغانستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے جو خاک و خون کا سیلاب رواں دواں ہے، اسکے آغاز کے بارے میں مختلف تجزیہ نگار مختلف رائے رکھتے ہیں۔ افغان تجزیہ نگاروں کی تین رائے ہیں۔ نمبر ایک کہ یہ دائود خان اس تمام قضیہ کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر آئندہ کی بغاوتوں کا راستہ ہموار کیا، دو وہ جو اپریل 1978ء کے ثور انقلاب کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں جس کے نتیجے میں خون بہنا شروع ہوا اور بیرونی قوتوں کو مداخلت کی دعوت کا سلسلہ شروع ہوا تیسرے وہ جو افغانستان میں سویت یونین کی افواج کے داخلے کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ آزاد، لبرل اور بائیں بازو کے ماہرین بھی منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ 1974ء ، 1975ء میں پاکستان کی جانب سے گلبدین حکمت یار، براہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود کو منظم کرنے اور فوجی تربیت دینے کو اس تنازع کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ دوسرا وہ جو اس معاملے کی اصل جڑ پاکستان کی جانب سے افغان انقلاب اور سویت یونین کے خلاف مجاہدین کی تربیت کرنا، انہیں اسلحہ دینا اور پاکستان میں ان کے کیمپ قائم کرنا کو آغاز قرار دیتے ہیں۔ تاہم سب ایک اہم عنصر کو نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان تمام المیوں کی ذمہ داری نیشنل عوامی پارٹی، خصوصاً ولی خان کا 1973ء میں بھٹو اور پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کا فیصلہ ہے۔ بی بی سی کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے کردار سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں لیکن نیشنل عوامی پارٹی نے غوث بخش بزنجو کی رضامندی کے بغیر تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اگرچہ نیپ کے اس فیصلے میں بعض دیگر بلوچ رہنما اور کمیونسٹ بھی شامل تھے لیکن اصل فیصلہ عبدالولی خان کا ہی تھا۔ باچا خان کے بیٹے کے طور پر انھوں نے افغانستان میں اپنے اعتبار کا فائدہ اٹھایا۔ غوث بخش بزنجو ان حالات میں بھی بھٹو سے مذاکرات کے خامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو کے ساتھ جنگ میں نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ بزنجو اکیلے رہ گئے اور ولی خان کی منطق جیت گئی۔ افغانستان کی بربادی میں جو جتنا زیادہ حصہ لیتا ہے اتنا ہی زیادہ معتبر ٹھہرتا ہے۔ ولی خان کی جانب سے پختون نوجوانوں کو افغانستان بھیجنے اور مسلح کرنے کے جواب میں پاکستان نے 1974ء ، 1975ء میں اخوانی عناصر کو مہمان بنانا، انہیں فوجی تربیت دینا اور مسلح کیا تھا۔اس تمام تباہی کے محرکین وہی لوگ ہیں جو آج عدم تشدد کے لبادے میں لپٹے ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن