• news

آرمی چیف 15 نومبر کو امریکہ جائینگے، موضوعات کے اعتبار سے مشکل دورہ ہوگا

اسلام آباد (اے پی پی + اے ایف پی) چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف 15نومبر کو امریکہ کے دورے پر روانہ ہونگے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف 15 سے 20نومبر تک دورہ امریکہ کے موقع پر فوجی اور سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتوں کے دوران سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کرینگے۔ اے ایف پی کے مطابق سینئر پاکستانی سکیورٹی عہدیدار نے بتایا اس دورے کے دوران دونوں اطراف افغانستان میں امن عمل اور طالبان کے افغان حکومت سے معطل شدہ مذاکرات پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ اس موقع پر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن پر بھی گفتگو ہوگی۔ این این آئی کے مطابق دورے کے دوران افغانستان کی صورتحال اور دہشت گردی کیخلاف جنگ پر بات چیت کی جائیگی آرمی چیف امریکی سنٹرل کمانڈ کا دورہ کریں گے اور سینٹ کام چیف چیف جنرل لائیڈ جے آسٹین سے ملاقات کریں گے۔
آرمی چیف/ دورہ
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایسے دورہ پر واشنگٹن پہنچ رہے ہیں جو زیر غور آنے والے موضوعات کے اعتبار سے دونوں ملکوں کیلئے مشکل ثابت ہوگا۔ ایک جانب تو یہ دورہ پاکستان کے فوجی سربراہ کو یہ سمجھنے میں مدد دیگا کہ امریکہ 2016ءکے بعد افغانستان کی سلامتی کے بندوبست میں کس حد تک مو¿ثر رہیگا وہیں وہ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھارت کی بلا جواز اشتعال انگیزی کو بھی اجاگر کریں گے اور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کے معاملات بھی اٹھائیں گے۔ جنرل راحیل کے مجوزہ دورہ امریکہ کی تفصیلات سے آگاہ ایک ذریعہ کے مطابق پنٹاگان اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں جنرل راحیل کو امریکیوں کی طرف سے چبھتے ہوئے سوالات کا سامنا ہو گا۔ تاہم جنرل راحیل کو یہ سہولت حاصل ہے وہ ایک سپاہی کی مانند سیدھی، صاف اور دوٹوک بات کرتے ہیں دفاع و سلامتی کے شعبوں میں پاکستان امریکہ تعلقات اور اس خطہ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں وہ ایک واضح نقشہ ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔ اس ذریعہ کے مطابق جنرل راحیل کے دورہ سے عین پہلے امریکہ نے افغان طالبان کو اس جنگ زدہ ملک میں امن کیلئے شراکت قرار دیکر پاکستان کے اس مو¿قف کی تائید کی ہے کہ افغانستان میں طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ وہاں کی تحریک مزاحمت خصوصاً طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ ہی امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت کے امکانات کے موضوع پر بات کرتے وقت یہ معاملہ ضرور زیر غور آئے گا کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر افشا کر کے بات چیت کے دوسرے دور کو ناکام بنایا گیا اور اب جبکہ ایک بار پھر مذاکرات کے احیاءکی امید پیدا ہو رہی تھی تو ملا عبدالرسول کی قیادت میں ایک مخالف طالبان دھڑا قائم کر کے بات چیت کو مزید دشوار بنایا جا رہا ہے اور ظاہر ہے یہ کام پاکستان نہیں کر رہا بلکہ افغانستان سے اس کی ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں۔ کچھ حلقے اس کام کو افغان اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اور بعض حلقے براہ راست امریکی سی آئی اے کی کارستانی قرار دے رہے ہیں۔ جنرل راحیل واشنگٹن میں قیام کے دوران یہ جاننا چاہیں گے امریکی،افغانستان کے آئندہ سیاسی اور سلامتی کے بندوبست کے بارے میں 2016ءکے بعد کیا عزائم رکھتے ہیں۔ امریکی دارالحکومت میں ملاقاتوں کے دوران پاکستان کے فوجی ایٹمی پروگرام، میزائل پروگرام، پاک فوج کی جنگی استعداد اور دہشت گردی کیخلاف صلاحیت بڑھانے کی ضروریات سمیت متعدد دیگر امور پر بھی بات ہو گی۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان، افغانستان اور امریکہ کی اعلی فوجی و سفارتی قیادت پر مشتمل اس سہ فریقی کمیشن کے احیاءکی تجویز متوقع ہے جس کے اجلاس جنرل کیانی کے دور میں باقاعدگی سے ہوتے رہے لیکن اب ایک طویل مدت سے سہ فریقی کمیشن غیر موثرہے۔اس ذریعے کے مطابق جنوبی ایشیا میں روایتی فوجی طاقت کے عدم توازن پر بھی گفتگو متوقع ہے کیونکہ اس عدم توازن کے باعث ہی پاکستان نے اپنی ایٹمی ڈاکٹرائن میں حالیہ بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی ہے۔
مشکل دورہ

ای پیپر-دی نیشن