بہار میں ریکارڈ 30 انتخابی جلسے بھی مودی کو ذلت سے نہ بچا سکے
پٹہ+ نئی دہلی (نیوز ڈیسک) بھارتی ریاست بہار کے الیکشن اس لحاظ سے خاصے سیاسی اہمیت کے حامل ہیں کہ پہلی مرتبہ کسی بھارتی وزیراعظم نے اپنی جماعت کی ڈوبتی سیاسی کشتی کوبچانے کیلئے خود میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا۔ بہار کے مختلف علاقوں میں نریندر مودی نے ریکارڈ 30 انتخابی جلسے کئے انہیں شاید یہ زعم تھا کہ وہ عوام میں بہت مقبول ہیں اور بہار میں بھی ”مودی لہر“ کا اثر برقرار ہے مگر بہار کے عوام نے ان کی توقعات پر پانی پھیر دیا۔ بھارت میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پسماندہ ذاتوں اور اقلیتوں کے لئے ملازمتوں کے کوٹے ختم کرنے کا بیان دے کر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے بی جے پی کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ بھارت کی پسماندہ ترین ریاست سمجھے جانے والے بہار میں ملازمتوں کے کوٹے پر نچلی ذاتیں اسی طرح حساس ہیں جیسے کشمیری آرٹیکل 370 کے خلاف بات سننی گوارہ نہیں کرتے۔ بہاریوں کو موہن بھگوت کا بیان نہ بھایا گوکہ بی جے پی نے فوراً وضاحتی بیان جاری کیا کہ وہ کوٹہ سسٹم کونہیں چھیڑے گی۔ بہار کے لوگوں نے اعتبار نہیں کیا جبکہ وزیراعلیٰ نتیش کمار جو تیسری بار ریکارڈ ووٹوں سے جیت کر ریاستی الیکشن میں فاتح کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کے اتحادی لالو پرشاد یادیو نے کہا ہے کہ نتیش کمار بہار کے وزیراعلیٰ رہیں گے مگر اعتدال پسند سیاسی حلقے انہیں نریندر مودی کے مقابلے میں تیسری معتدل سیاسی قوت اور مستقبل کی قومی قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا یہ بیان کر بی جے پی بہار کے الیکشن میں ہاری تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے کافی مہنگا پڑ گیا۔ بی جے پی ہاری تو پاکستان سے زیادہ بھارت میں ہی پٹاخے پھوٹے مٹھائیں بانٹی گئیں۔