اقبال اور آج کا پاکستان
نظریات اور زندگی کے فلسفے کے سانچے میں ڈھلے اشعار صدیوں بعد بھی انسانوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں اوران کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے تقریبا ایک صدی پرانے کلام کی آفاقیت اور طاقت کا اقرار آج وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو کسی زمانے میں انہیں مذہب کے ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے رہے ۔ کل کے سیاسی و مذہبی ناقدین کے بعد کی نسلوں نے علامہ اقبال کے اشعار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے ۔ مسجد کا منبر ہو یا سیاست کا سٹیج اقبال کے اشعار اور ان کی تشریح کے بغیر شاہد ہی کوئی خطبہ اور سیاسی جلسہ مکمل محسوس ہوتا ہے ۔ اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تو پاکستان کی سیاسی صورتحال پر کیا فرماتے اور کون سی جماعت میں ہوتے؟ کیا وہ اصل مسلم لیگ یعنی قائد اعظم کی مسلم لیگ کے اصل وارث ہوتے اور یہ کہ فیلڈ مارشل ایوب خان ، جنرل یحیی ،جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں وہ حبیب جالب کے ہمراہ کسی جیل میں قید ہوتے یا چند قومی شعراءادیبوں کی طرح کسی سرکاری ادبی ادارے کی سربراہی کر رہے ہوتے ؟ اور پھر یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان جیسے بڑے سیاست دان انہیں اور جناب قائد اعظم کو کس طرح قابل احترام جناب سراج الحق صاحب کی اسلامی جمعیت طلبا چھوڑ کر اپنی اپنی جماعتوں میں شمولیت کے لیے راضی کرتے ۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ اگر قائد اعظم اور علامہ اقبال زندہ ہوتے تو اسلامی جمعیت طلبہ میں ہوتے ۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم اگر جماعت اسلامی میں ہوتے تو محترمہ فاطمہ جناح فیلڈ مارشل ایوب خان کو شکست دے کر ضرور اسلامی ملک کی پہلی خاتون سربراہ مملکت بن ہی جاتیں ۔ جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کی سربراہی میں خاتون سربراہ مملکت ہونے سے متعلق اپنے فتوے میں لچک پیدا کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت بھی کی تھی۔
نجانے اس وقت انھوں نے محترمہ کو جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی تھی یا نہیں ؟بہرحال اگر آج قائد اعظم اور علامہ اقبال جماعت اسلامی میں ہوتے تو سراج الحق صاحب بجا طور پر اپنے ان دونوں کارکنوں پر فخر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر سکتے تھے کہ پاکستان، مسلم لیگ نے نہیں جماعت اسلامی نے بنایا ہے اور آج پاکستان کا جھنڈا اور قومی ترانہ دونوں ہی وکھری ٹائپ کے ہوتے ۔
خیر بات ہو رہی تھی علامہ اقبال کی تو ان کے کلام کو پڑھتے ہوئے آج کے دور کی اہم سیاسی و مذہبی شخصیات کا چہرہ مبارک اشعار کے بیچ سے جھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔
عجب و اعظ کی دین داری ہے یا رب !
عدوات ہے اسے سارے جہاں سے
۔ ۔ ۔ ۔
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آواز اذاں سے
واعظ کو یونہی مخاطب کرتے ہوئے علامہ اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی کے خواتین کے پردے سے متعلق فتووں کے تناظر میں علامہ اقبال کی یہ رائے کافی دلچسپ ہے ۔
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
مفت میںکالج کے لڑکے ان سے بدظن ہوگئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہوگئے ؟
اسی طرح علامہ اقبال کو شائد مستقبل کے مسلم لیگ کے قائدین کی خودی کا بھی اندازہ تھا ۔ جب انھوں نے کہا ۔
میرا یہ حال بوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں میں
ان کا یہ حکم دیکھ ! مرے فرش پہ نہ رینگ
تعلیمی اداروں خاص کر نجی تعلیمی اداروں میں طالب علموں اور اساتذہ کے روحانی رشتے میں کاروبار کی آمیزش کی پیش گوئی انھوں نے کچھ اس انداز میں کی ۔
تھے و ہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہء دل پیش کیجئے
بدلہ زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’ ’ بل پیش کیجئے “۔
پاکستان کی سیاست اور پوشیدہ سیاسی قوتوں کے کردار خاص کر تحریک انصاف کے دھرنے کے تناظر میں اقبال کا یہ شعر۔
بیچارہ پیادہ تو ہے ایک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ !
اقبال نے تعلیمی اداروں میں تحقیق و تدریس کی آزادی اور نوجوانوں کی کردار سازی کے حوالے سے جو کہا وہ آج بھی ہماری یونیورسٹیوں کے معیار اور انکی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ ہمارے طالب علموں کو ملک کی آئینی اور سیاسی تاریخ کے تناظر میں فوجی مارشل لاﺅں بھٹو کی پھانسی اور خفیہ اداروں کے ”تاریخی “ کردار پر تحقیق کی کتنی آزادی ہے ۔ اس کا اندازہ اقبال کے اشعار میں بخوبی ہوتا ہے۔
اقبال ! یہاں نام نہ لے علم خود ی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علم نباتات !
علامہ اقبال نے تو شائد اپنی وفات کے بعد پاک افغان خطے میں آنے والے حالات کا بھی بخوبی اندازہ کر لیا تھا ۔
وہ مس بولی ، ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے
مہذب ہے تو اے عاشق ! قدم باہر نہ دھر حد سے
نہ جرات ہے نہ خنجر ہے تو قصد خودکشی کیسا
یہ مانا درد نا کامی گیا تیرا گزر حد سے
کہا میں نے کہ اے جان جہاں کچھ نقد دلوا دو
کرائے پر منگا لوں کا کوئی افغان سرحد سے
پاکستان بھر میں بلدیاتی انتخابات کے بعد ان ضلعی حکومتوں کے لیے فنڈز کی فراہمی اور اس کا طریقہ کار ایک بڑا سوال بن گیا ہے اور یہی سوال اقبال نے پچھلی صدی میں ہی اٹھا دیا تھا ۔
ممبری ایمپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں
ووٹ تو مل جائینگے ، پیسے بھی دلوائیں گے کیا؟
مرزا غالب ، خدا بخشے بجا فرما گئے
” ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہےں ، کھائیں گے کیا ؟“
اقبال کا کلام اسلحے کا وہ ذخیرہ ہے جہاں سے ہتھیار حاصل کر کے ہر کوئی اپنا اپنا جہاد جاری رکھ سکتا ہے ۔
فتویٰ یہ شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجہ خونیں سے ہو خطر
حق سے اگر غرض ہے تو زبیا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے در گزر !
اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تو شائد ان کا زیادہ وقت اپنے کلام کی وضاحتیں کرنے میں ہی گزر جاتا ۔ ایسی وضاحتیں جو شائد بہت سے سیاست دانوں اور مذہبی جماعتوں کے لیے بھی قابل قبول نہ ہوتی ۔ ان حالات میں نجانے اپنے خواب کی تعبیر مملکت خداداد پاکستان میں بھی رہ پاتے یا نہیں ؟