• news
  • image

اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح....(آخری قسط)

غور طلب بات یہ ہے کہ تخلیق کے معاملے میں اقبال کے ہاں نیکی اور بدی یا گناہ اور ثواب میں فرق معدوم ہو جاتا ہے۔ بلکہ انوکھے جذبات کے طور پر یا تخلیقی انداز میں کیا گیا گناہ بھی ثواب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: بدی کی اپنی تعلیمی اہمیت ہے کیونکہ اس سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ نیک لوگ عموماً بے وقوف ہوتے ہیں کیوں؟ اپنی سادہ لوحی کے سبب۔ ”جاوید نامہ“ میں منصور حلاج اقبال کو شیطان سے ملواتا ہے۔ کہتا ہے ”توحید“ سیکھنی ہے تو شیطان سے سیکھ کیونکہ وہ عاشق اول ہے، توحید کا راز جانتا ہے کہ واحدہُ، لا شریک لہ‘ کے سامنے جھکا سر کسی اور کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ اسی طرح ”جاوید نامہ“ میں اقبال بھرتری ہری سے پوچھتے ہیں: ”شعر کہاں سے آتا ہے؟ میری اپنی خودی سے یا خدا سے؟ وہ جواب دیتا ہے: ”کسی کو معلوم نہیں شاعر کا مقام کہاں ہے، یعنی نبی اور ولی خدا کو دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن شاعر کو نہ وصال میں تسکین ملتی ہے نہ فراق میں۔ اس کی بے چینی دور نہیں ہوتی۔ پس اقبال اسلامی تہذیب کی روح کے مطابق اسلام جس آزادی کا پیغام دیتا ہے اسے قائم و دائم رکھنے کی خاطر تخلیق اور اختراع کے تسلسل کی ضرورت ہے جو مسلسل اضطراب کی کیفیت میں رہنے کے بغیر ممکن نہیں۔ نتیجہ میں اقبال مسلمان کے لیے ”سُکر“ کی بجائے ”سہو“ کی حالت برقرار رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اگرچہ چند فقروں میں بتانا ہو کہ اقبال کے ہاں اسلامی تہذیب کی عطا کردہ نعمتیں کیا ہیں؟ جواب ہوگا: مسلمان کو ملوکیت آمریت کے جبر کو صبر سے قبول کرنے کی بجائے جمہوری نظام کو بجائے خود چلانے کی آزادی دیتی ہے۔ اسے ”تقلید“ کی نشہ آور نیند قبول کرنے کی بجائے ”اجتہاد“ کے عمل کے ذریعہ مسلسل بیداری اور حرکت میں رکھتی ہے۔ مسلمان کے لیے عقلی اور تجربی علوم کی تحصیل میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کرتی اور آخر میں مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ”خلاق“ اور ”مشتاق“ کی ترغیب دیتی ہے۔
اگرچہ تبصرہ نگاروں نے اقبال پر مختلف قسم کے الزامات لگائے کہ وہ یورپی فکر سے متاثر تھے، تجدد پسند طبیعت رکھتے تھے، قرآنی آیات کی مروجہ تفسیر سے ہٹ کر اپنے نظریات کے مطابق ان کی تاویل کرتے تھے وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق ہر نئی فکر یا دریافت کو قرآنی آیات کی روشنی میں نہ صرف پرکھا جا سکتا ہے بلکہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی تہذیب میں ان مسائل پر جو آج جدید سمجھے جاتے ہیں، غور و فکر کیا گیا۔ وہ مسلمانوں کی تمدنی احیاءکے خواہشمند تھے اور ان پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ من حیث الملت، علم اور سائنس کے میدانوں میں وہ کسی سے پیچھے نہیں بلکہ دنیا کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی اہل مغرب کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ علم اور سائنس کے میدانوں میں جو ترقی انہوں نے کی ہے وہ دراصل اسلامی تہذیب ہی کی مرہون منت ہے۔
بہرحال خطبات ”فکر اسلامی کی تشکیل نو“ کو جن میں ان خیالات کا اظہار کیا گیا، سعودی عرب کے شہر الریاض کی کسی بین الاقوامی مسلم کانفرنس میں ”کفریات“ قرار دیا جا چکا ہے۔ سو ”تقلید“ اور ”اجتہاد“ کی آپس میں کشمکش جاری ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ آج سے تقریباً 85برس پیشتر جب ”جاوید نامہ“ تحریر کیا گیا تو تب بھی یہی کیفیت تھی۔ ”فلک عطارد“ میں عالم اسلام کے مسائل پر بحث کے دوران اقبال سعید حلیم پاشا سے سوال کرتے ہیں: ”آج کے زمانے میں اسلام کیوں کفر سے زیادہ رسوا اور بدنام ہے؟ ”جواب دیا جاتا ہے: ”روحِ دین یا اسلامی تہذیب کی روح کے فہم سے عاری ملا نے مومن کو کافر بنانے کا روپ اختیار کر رکھا ہے۔ اس کی کج بحثی کے سبب ملت فرقوں میں بٹ گئی اور حرم کی بنیادیں ہل گئیں۔ کہاں ہمارے ملا اور ان کے مدرسے اور کہاں قرآن کے اسرار۔ گویا ایک طرف مادرزاد اندھے ہیں اور دوسری طرف نور آفتاب۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جہاد کے بارے میں فکر و تدبر کرنا اب کافر کا دین ہے اور ملا کا دین اللہ کے نام پر مسلمانوں میں دنگا فساد برپا کرتے رہنا ہے۔“ اس مرحلہ پر سب پر مایوسی کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔ رومی اقبال سے کہتے ہیں: ”کوئی ایسی غزل سنا جس سے دوست کی خوشبو آئے تاکہ یہ خوشبو ہر طرف پھیل کر ملت اسلامیہ کو دوست کے کوچے کی طرف لے چلے۔ ”غزل سنائی جا چکی۔ دوست کی خوشبو پھیل گئی۔ لیکن ملت اسلامیہ ابھی منقسم و منتشر ہے۔ اللہ اس پر رحم کرے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن