’’بہتر گورننس کا بیان‘‘ وزیراعظم پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ اجلاس بلائیں: چیئرمین سینٹ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ کی بازگشت سنی گئی قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں گورننس بہتر بنانے کی بات حکومت کے لئے بہت بڑا اشارہ ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ دونوں شریفوں کو ایک پیج پر ہونا چاہئے۔ سپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور وقفہ سوالات میں وزرا کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آدھی مدت پوری کر لی ہے لیکن آج تک اس نے پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ حکومت گورننس بہتر بنائے جو حکومت کے لیے بہت بڑا اشارہ ہے، ہم پارلیمنٹ کے باہر بننے والی کسی خارجہ پالیسی کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس پی آر کا گذشتہ روز کا بیان آئین کی روح کے خلاف ہے۔ محمود اچکزئی نے وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر دو شریف ایک صفحے پر ہوں گے تو غیر مشروط حمایت کریں گے اور اگر خدانخواستہ دونوں شریفوں میں گڑبڑ ہوئی تو میں سویلین شریف کے ساتھ ہوں گا۔ ایوان میں بیان کے حوالے سے گرما گرم بحث ہوئی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آج تک وزیراعظم نے وزراء کو گورننس بہتر بنانے کیلئے کچھ نہیں کہا۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج بھی کیا۔ اور کہا کہ وزراء کی عدم حاضری کے ساتھ بیوروکریٹس بھی سوالوں کے صحیح جواب نہیں دے رہے۔ حال یہ ہے کہ ہماری باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ اجلاس سے ارکان غائب ہیں، کوئی کورم کی نشاندہی نہیں کرتا، بادشاہ لوگ آ جائیں تو کارروائی آگے بڑھائی جائے۔ وزیراعظم نے ایوان میں آنا چھوڑ دیا تو وزراء کیوں آئینگے، ہمارا وزیراعظم آتا تھا اس لئے ہمیں بھی آنا پڑتا تھا، ووٹ لینے کیلئے تو وقت نکل آتا ہے جیتنے کے بعد یہاں آنا کوئی گوارا نہیں کرتا۔ خورشید شاہ کی باتوں کا نوٹس لیتے ہوئے سپیکر نے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری پلاننگ اور سیکرٹری خزانہ کو فوری طلب کر لیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ فوج کا اعلامیہ حکومت کیلئے ڈھکے چھپے الفاظ میں واضح پیغام ہے، امید ہے وزیراعظم اشارہ سمجھ کر کابینہ کو ٹھیک کرینگے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ آئی ایس پی آر کا بیان حکومتی نااہلی کی نشاندہی ہے۔ حکومت نے ڈھائی سال میں دہشت گردی کے خلاف کام نہیں کیا، حکومت کے لیے آئی ایس پی آر کا بیان لمحہ فکریہ ہے۔ تحریک انصاف کے رکن نے مطالبہ کیا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر اب تک کے عملدرآمد پر ایوان کو بریفنگ دے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وقفہ سوالات کے دور ان وزراء اور سیکرٹریز کی عدم موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے اجلاس مختصر وقت کے لئے ملتوی کردیا محمود خان اچکزئی نے کہاکہ وزراء کو اجلاس میں شرکت کا پابند بنایا جائے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ اپوزیشن ایوان چلا رہی ہے‘ کورم کی نشاندہی نہیں کی تاہم اب کریں گے۔ اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت سے صرف پانچ منٹ تاخیر سے شروع ہوا تو ایوان میں صرف 27 ارکان موجود تھے جبکہ صرف ایک وزیر سکندر حیات بوسن موجود تھے۔ بدھ کو ایوان میں نکتہ اعتراض پر پی ٹی آئی کے شفقت محمود، نفیسہ شاہ، غلام سرور خان، محمود خان اچکزئی، سید نوید قمر، یوسف تالپور، آسیہ ناز تنولی، نثار جٹ، شازیہ ثوبیہ، علی محمد خان، شیر اکبر خان، چودھری جعفر اقبال اور نعیمہ کشور نے اہم قومی نوعیت کے ایشوز اور اپنے حلقے کے مسائل پر ایوان کی توجہ مبذول کرائی۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ترمیمی آرڈیننس پیش کرنے کی ضرورت نہیں، حکومت قانون سازی کرے۔ شیریں مزاری نے بھی آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سیشن کے دوران پیش نہیں ہونا چاہیے۔ غلام سرور نے کہا کہ صدارتی خطاب پر بحث نہ ہونا افسوسناک ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ 11 ماہ سے صدارتی خطاب پر بحث نہیں ہو سکی، اب ضروری ہے کہ اب اسے واپس لے لیا جائے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ تحریک نمٹا دی گئی ہے۔ یوسف تالپور نے کہا کہ زراعت کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے، گنے کی امدادی قیمت نہیں ملی، معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، کورٹ میں ٹائم نہیں چلا، گنے کی فروخت کے وقت چینی 45 روپے کر دی گئی اور اب 65 روپے پر پہنچ گئی ہے، حکومت مل مالکان کے خلاف نوٹس لے کر کارروائی کرے۔ آسیہ ناز تنولی نے کہاکہ گدو اور دیگر علاقوں میں گیس پریشر نہیں ہے، حکومت توجہ دے۔ نثار جٹ نے کہا کہ بھولا گجر کے قاتل نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اس نے کس کے کہنے پر قتل کئے، رانا فرحت اللہ ماسٹر مائنڈ کو برطانیہ سے واپس لایا جائے اور کیس فوج کے حوالے کیا جائے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ جعلی ایس ایم ایس کرنے پر انکوائری کروا کر ایکشن لیا جائے۔ راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ منگلا اپ ریزنگ کے متاثرین کو معاوضہ جات ادا کئے جائیں۔ علی محمد خان نے کہا کہ اگر باجوڑ میں گورنر کی بدسلوکی پر شہاب الدین استعفیٰ دے کر جائے گا تو یہ سارے ایوان کی ناکامی ہو گی۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) قومی اسمبلی نے گزشتہ روز پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں مزید ترمیم کا بل اسلام آباد میں یکم جولائی 2015ء سے کم سے کم اجرت 13 ہزار مقرر کرنے کے ترمیمی بل منظور کرلئے۔ اس سے قبل اپوزیشن ارکان ان دونوں ترمیمی بلز کی منظوری کے عمل کے دوران بحث میں حصہ لیا اور اپنی تجاویز پیش کیں۔ اپوزیشن ارکان نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کو بلڈوز نہ کیا جائے۔ ارکان نے کم سے کم اجرت 18 ہزار روپے سے 20 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے کہا کہ حکومت کم سے کم اجرت پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور دفاتر حکومت اور صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کی جائے کہ کن اداروں میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے اگر کن اداروں میں یہ نہیں کیا جا رہا۔ قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کو زیر غور لانے کی تحریک کی منظوری کے وقت اپوزیشن ارکان نے نشستوں سے کھڑے ہو کر ’’نو نو‘‘ کے نعرے لگائے۔ ترمیمی بل کے تحت آرمی ایکٹ کی سیکشن2 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت پاکستان آرمی ایکٹ 1952میں ترمیم سے قبل مسلح افواج، سول آرمڈ فورسز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اگر کسی شخص کو تحویل میں لیا ہو یا گرفتار کیا ہو تو اس کی حراست یا گرفتاری اسی قانون کے تحت تصور ہو گی۔ کسی فرد کے خلاف جن اہلکاروں نے متذکرہ قانون کے تحت نیک نیتی سے قدم اٹھایا یا ارادہ کیا ہو اس کے خلاف کوئی مقدمہ، استغاثہ یا دیگر قانونی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ ایک دوسری ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ کے تحت تشکیل شدہ عدالت یا اتھارٹی ایسے حکام وضع کر سکے گی جیسے بند کمرہ اجلاس، عدالتی اہلکاروں کے نام اشاعت نہ کرنا شامل ہیں۔ اس کا مقصد گواہ، عدالت کے سربراہ، عدالتی ممبران، پراسیکیوٹرز، دفاع کرنے والے افسران کو تحفظ دینا ہے۔ ترمیمی قانون کی ضرورت کے حوالے سے بتایا گیا کہ غیر معمولی صورتحال ہے۔ مسلح گروہوں کو مذہب اور مسلک کا نام استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی اور مقامی عناصر کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے، موزوں مقدمات قانونی کارروائیوں اور ملزمان کی گرفتاری یا نظربندی کے خلاف تحفظ اور استثنا کے لئے خصوصی اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے یہ امر مناسب ہو گا کہ مذکورہ مقدمات کی کارروائی کے دوران، عدالتی اہلکاروں کی سلامتی، تحفظ پر کسی طور سمجھوتہ نہ ہونے پائے۔ اس سے قبل بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے تحریک انصاف کے رکن عارف علوی نے کہا جب قانونی ترمیم کی جاتی ہے پورا سیاق وسباق کے ساتھ کرائی جاتی ہے۔ یہ بتایا جائے کہ کتنے افراد اس میں آئیں گے۔ وزرا کی تیاری نہیں ہے ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا اس قانون کے بارے میں بے چینی پائی جا رہی ہے اس قانون سازی کو روکا جائے۔ تحویل اور گرفتاری کے حوالے سے بہت سے سوالات ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری دفاع چودھری جعفراقبال نے کہا کہ قانون میں ترمیم کی پوری وضاحت موجود ہے۔ تمام تحفظات کو زیر غور لایا گیا تھا۔ اداروں نے جس طرح دہشت گردی سے روکا ہے ہمیں انکا معاون بننا چاہیے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ 21ویں ترمیم منظور کی تھی۔ بتایا جائے سیکشن 3 اور سیکشن4 میں کیا سقم تھا جس کو دور کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عذرا نے کہا غیر معمولی حالات نہیں ہیں۔18ویں ترمیم کے بعد تو گنجائش ہی نہیں ہے۔ حکومت کا معمول ہے کہ آئے روز آرڈیننس لا رہی ہے۔ اس طریقہ کی حوصلہ شکنی ہونا چاہیے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا پارلیمانی لاجز میں کام کرنے والے 40 ملازمین کو 3 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ اس معاملہ کا نوٹس لیا گیا ہے۔ آئی این پی کے مطابق قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی مخالفت کے باوجود پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015ء سمیت صنعتی مزدوروں کی کم از کم اجرت کا ترمیمی بل کم از کم اجرت برائے غیر ہنر مند کارکنان ترمیمی بل 2015ء کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
اسلام آباد (خبرنگار) چیئرمین سینٹ نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر تفصیلی بریفنگ اور بحث کیلئے سینٹ یا پارلیمان کا اِن کیمرہ اجلاس بلاکر پارلیمنٹرینز کو خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر تفصیلی بریفنگ دیں۔ ایوان بالا کے اجلاس کے دوران چیئرمین نے کہا کہ وہ حکومت کو ہدائت نہیں دے سکتے صرف تجویز دیتے ہیں کہ سینٹ یا پارلیمان کا اِن کیمرہ سیشن بلا کر ملک کی خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر تفصیلی بریفنگ اور بحث کرلی جائے‘ پارلیمان اسی لئے ہوتا ہے اور یہ مناسب ہوگا اگر حکومت اس پر غور کرے۔ امید ہے حکومت اس پر غور کریگی، مشیر خارجہ وزیراعظم کو یہ تجویز پہنچا دیں۔ ضرورت ہو تو خارجہ امور قومی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا کہ بیورو کریسی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ وقفہ سوالات کے دوران نیکٹا میں تعیناتیوں سے متعلق وزیر مملکت برائے داخلہ کے جواب پر چیئرمین سینٹ نے کہا کہ بیورو کریسی کا اس حوالے سے رویہ نامناسب ہے اور یہ رویہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے پارلیمنٹ کی کوششوں کو ضائع کر رہا ہے۔