سینٹ: اینٹی منی لانڈرنگ بل منظور‘ اقتصادی راہداری سے متعلق جواب نہ ملنے پر اپوزیشن کا واک آئوٹ
اسلام آباد (خبرنگارخصوصی+ ایجنسیاں) ایوان بالا میں اقتصادی راہداری منصوبہ کے متعلق سوالوں کے جواب نہ ملنے پر اپوزیشن جماعتوں نے واک آئوٹ کیا۔ ایوان نے اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2015ء کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وزیر اعظم کی زیرصدارت اقتصادی راہداری کے اعلامیہ پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، حکومت اس معاملے پر چیٹ کرنا چاہتی ہے ۔ وزراء کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس سوال کا جواب دینا ہی نہیں چاہتی۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ راہداری میں بلوچستان میں توانائی، ریلوے کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہے۔ وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ اپوزیشن ممبران کی جانب سے دیئے گئے سوالات 27 اکتوبر کو ملے ہیں۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی دو ہفتوں سے کافی مصروف ہیں اس لئے جواب نہیں آ سکا۔ حکومت وزیر اعظم کی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ پر عمل کررہی ہے ۔ مغربی روٹ پر کام جاری ہے۔ سینیٹر بشیر بلور نے کہا کہ حکومت 28 مئی کو ہونے والی میٹنگ کی مخالفت کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر کا بس چلے تو وہ گوادر کو نارووال منتقل کر دیں۔ وزیراعظم وعدے سے وفا نہیں کر رہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق سوال کا جواب موخر کردیا۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے حکومت پر بغیر سوچے سمجھے الزام لگایا جو انہیں زیب نہیں دیتا۔ قائد ایوان کی درخواست پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے سینیٹر فرحت اللہ بابر کے نامناسب الفاظ حذف کردیئے۔ وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ حکومت کی نیت اور ارادوں پر شک نہ کیا جائے۔ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اس سے قبل ملک میں این ایف سی ایوارڈ 16سال تک چلے، کچھ مہینے اوپر ہوئے تو آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں، مجھے کوئی دکھائے آئین میں کہاں لکھا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ 5 سال بعد ہوتا ہے، ایوارڈ کو طول دینے پر کام ہو رہا ہے اور یہ آئین کی خلاف ورزی ہرگز نہیں، این ایف سی میں 57.50 فیصد حصہ صوبوں کا اور وفاق کا 42.5فیصد ہے۔ ہماری حکومت نے ضلع ٹیکس کے نام پر غنڈہ ٹیکس کو ختم کیا۔ اپوزیشن ملک کی معاشی صورت حال پر سیاست نہ کرے ہم دن کی روشنی میں تمام کام کررہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے اپوزیشن جماعتوں کو متفقہ ’’چارٹر آف اکانومی‘‘ کی تیاری کے لئے مل بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ معیشت کو سیاست بازی کا نشانہ نہ بنایا جائے‘ غلط اور منفی پراپیگنڈے سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ‘ فی پاکستانی ایک لاکھ بیس ہزار مقروض ہونے کے اعداد و شمار کنٹینر سے دیئے گئے اس طرح کے غلط اعداد و شمار کا پراپیگنڈا کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے‘ گزشتہ تین برس کے دوران ملکی قرضوں میں تین کھرب کا اضافہ ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں ملکی قرضے چھ کھرب روپے سے بڑھ کر 1590 کھرب تک ہو گئے، سال اسے مزید کم کرکے 4.2 پر لائیں گے‘ آئی ایم ایف سے اڑھائی سالوں میں 6.6 ارب ڈالر قرضہ لیا جس میں سے مشرف اور بی بی دور کے 4.6 ارب ڈالر قرضہ واپس کیا۔ حلف لینے کے چار دن کے اندر 32 اداروں کے خفیہ فنڈز ختم کئے پہلے سال خسارے کو 8.2 پر لائے اس سال 5.2 پر لائیں گے۔ کل بیرونی قرضے 65 ارب ڈالر ہیں شیری رحمن کے اعداد درست نہیں ہیں سیلز ٹیکس 18فیصد کرنے کے لئے آئی ایم ایف دبائو ڈال رہا تھا جو قبول نہیں کیا۔ پندرہ ہزار 96 سو کھرب کا قرضہ جون 2013 میں تھا 1.9 بلین ڈالر ضرب عضب پر خرچ کئے 45 ملین ڈالر گزشتہ سال خرچ کئے اور 100ملین ڈالر اس سال کے بجٹ میں رکھے ہیں۔ اگر سابقہ حکومتوں کی طرف سے لئے گئے غیر ملکی قرضے واپس نہ کرنے ہوتے تو میں قطعاً آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتا۔ پیپلز پارٹی سے اقتدار ہمیں ملا تو اگلے دو سالوں میں آئی ایم ایف کے چار ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی قسط کی واپسی ہمیں ورثے میں ملی۔ آئی ایم ایف پروگرام سے لی گئی رقم میں سے غیر ملکی قرضے اور ضرب عضب و دیگر اخراجات کے بعد صرف 265 ملین ڈالر باقی بچے۔ یورو بانڈز پر تنقید کی جاتی ہے لیکن یہ بانڈ ہمیں مشرف دور میں لئے گئے پانچ سو ملین کے بانڈ کی رقم کی واپسی کے لئے لینا پڑا۔ پٹرول سستا ہوگیا جس کا اظہار معاشی ترقی میں نہیں ہورہا ایسے لوگوں کو میں جواب دینا چاہتا ہوں کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی سے جہاں ہمارا درآمدی بل کم ہوا وہاں دوسری جانب اتنی ہی ہماری برآمدات کی رقم میں بھی کمی ہوئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب پر پیسہ خرچ ہوا ہے، پاکستان کے دوست ممالک وعدے کرتے ہیں دیتے کچھ نہیں۔ 32 اداروں کی سیکریٹ فنڈنگ بند کر دی گئی ہے، اب صرف 2ایجنسیوں کو سیکریٹ فنڈز دئیے جا رہے ہیں۔ اینٹی منی لانڈرنگ بل کے مطابق سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی فراڈ ایکٹ میں شامل کر دئیے گئے، سیلز ٹیکس یا فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی چھپانے کیلئے غلط فائلنگ ثابت ہونے پر کارروائی ہو گی، فراڈ کی تحقیقات سٹیٹ بنک کے فنانشل یونٹ کی تصدیق کے بعد ہو سکے گی۔ ایوان بالا میں ایل این جی معاہدوں، صوبہ خیبر پی کے میں گیس کے نقصانات کا بوجھ صارفین کو منتقل کرنے اور خیبر پی کے حکومت کی جانب سے گیس کے نئے کنکشنز پر پابندی کے خاتمے سمیت کرک، کوہاٹ اور ہنگو میں گیس لوڈ میں اضافے سے متعلق قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کی رپورٹ پیش کر دی گئی۔ سینٹ نے حج آپریشن کے دوران پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے خلاف درج شکایات کے حوالے سے وزارت مذہبی امور میں قائم شکایت سیل سے متعلقہ رپورٹ پیش کرنے میں 30ایام کار کی توسیع کر دی۔ ایوان بالا میں جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے متعلق قائمہ کمیٹی برائے موسمی تبدیلی کی رپورٹ پیش کر دی گئی۔ وزیر مملکت عابد شیر علی نے بتایا کہ قائداعظم سولر پارک سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کا تعین نیپرا نے کرنا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ سینیٹر خالد سومرو کے قتل کے مقدمے کا چالان اگر انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش نہیں ہوا تو اس مقدمے کو فوجی عدالت منتقل کرنے پر سندھ حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ نیشنل بنک نے جولائی 2013ء سے 31اکتوبر 2015ء تک ایگزیکٹو اور نان ایگزیکٹو کیڈر میں 219تعیناتیاں کی ہیں۔ ملک بھر میں 36تجارتی بنک اور 12529شاخیں کام کر رہی ہے۔