حکمرانوں نے لبرل کی رٹ لگا رکھی ہے‘ عوام آئین سے کھلواڑ برداشت نہیں کرینگے: سراج الحق
لاہور (خصوصی نامہ نگار+ صباح نیوز) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ اداروں کے درمیان ٹکرائو سے نقصان ملک کا ہوگا۔ حکمرانوں نے متفقہ آئین سے کھلواڑ کی کوشش کی تو عوام انہیں برداشت نہیں کریں گے۔ وزیراعظم جب سے امریکہ کی یاترا کرکے آئے ہیں لبرل لبرل کی رٹ لگا رکھی ہے۔ الیکشن کمشن اگر آئین پر عمل کرے تو آج اسمبلیوں میں براجمان بہت سے چہرے نظر نہیں آئیں گے۔ جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دستور متفقہ ہے اس پر تمام سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران کے دستخط ہیں۔ دستور کی رو سے یہ ملک اسلامی ہے لیکن حکمران آئین کو متنازعہ بنا نے پر تلے ہیں تاکہ امریکہ سمیت اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرسکیں لیکن آئین کو اگر ایک بار چھیڑا گیا تو دوبارہ قوم کو اس پر متحد کرنا مشکل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لبرل اور سیکولر ازم تو بھارت میں بھی تھا اور برطانوی راج میں جمہوریت بھی موجودہ شکل سے زیادہ بہتر تھی پھر لاکھوں مسلمانوں کو اپنا سب کچھ قربان کرکے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ جو قوم مارشل لاء کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آسکتی ہے وہ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت کو بھی برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں چاہیں تو چوروں اور لٹیروں کو اسمبلیوں تک پہنچنے کا موقع نہیں مل سکتا مگر یہ پارٹیاں چند خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ سودی نظام کی وجہ سے حرام کمانا آسان اور حلال کھانا مشکل بنا دیا گیا۔ دریں اثناء نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو آپس کی لڑائی ختم کر کے عوام کے مسائل اور غربت کے خاتمے کے اقدامات کرنا چاہئیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیاں غریبوں کے لئے نہیں خوشحال طبقے کے لئے ہیں۔ شہر غریبوں اور مالداروں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ موجودہ معاشی نظام سے غریب مایوس ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ پیپلزپارٹی نے روش نہ بدلی تو آئندہ الیکشن میں شکست ہو گی۔ پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے پر عمل نہیں کر رہی وہ وڈیروں کی جماعت بن گئی ہے۔ اسمبلیوں اور حکومت کو مدت مکمل کرنی چاہیے۔ ایم کیو ایم کو بھتہ خوری کی سیاست چھوڑنا ہوگا۔ سیاسی اور فوجی قیادت کو مل کر فیصلے کرنے چاہئیں۔