گرتی ہوئی دیواریں ایک دوسرے کو سہارانہیں دے سکتیں
آئی ایس پی آر کے سیدھے سادھے بیان پر ہمارے سیاستدانوں نے غیرضروری بلکہ غیرسیاسی باتیں کی ہیں۔ وہ دن ہماری سیاست میں کب آئے گا کہ سیاستدان اپنی سیاست اور اپنی حکومت کے خراب ہونے کے کمپلیکس سے نکلیں گے۔ ان کے اندر کا خوف اور خواہش کا گردوغبار بیٹھ جائے گا۔ ہمیشہ ان کے دل میں مارشل لا کے جھکڑ چلتے رہتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ وقت گیا جب مارشل لا آ جاتا تھا۔ یہ بات ان کی زبان پر آئی کہ ان کے دل میں تھی۔ بڑے عرصے سے مارشل لا نہیں آیا۔ اب آئے گا بھی نہیں۔ مارشل لا کی جدائی میں اس طرح کی مضحکہ خیز باتیں منہ سے نکلتی ہیں۔ جب کوئی بات منہ سے نہ نکلے تو جو کچھ نکلے گا وہ ایسا ہی ہو گا جو محمود اچکزئی نے کہا کہ دو شریفوں میں مقابلہ ہوا تو میں سویلین شریف کا ساتھ دوں گا۔ اس سے پہلے چار بار مارشل لا آئے تو کونسا مقابلہ ہوا۔ تب محمود اچکزئی نے کسی بدمعاش کا بھی ساتھ نہ دیا تھا۔ سب سیاستدان فوجی صدر کی کابینہ میں تھے۔ ایک جنرل مشرف باوردی تھا۔ باقی سب سویلین تھے اور وردی کے ساتھ صدر مشرف کو منتخب کرانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ چند ایک کو چھوڑ کر کون سیاستدان ہے جو جرنیلوں کا مرہون منت نہیں ہے۔ میں مارشل لا کے خلاف ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اب مارشل لا نہیں آئے گا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ تو نہیں کہا گیا کہ گورننس بہتر نہیں ہے۔ تجویز دی گئی ہے۔ گورننس بہتر کرنے کی ضرورت ہے تو کیا کسی سیاستدان کو اس سے اختلاف ہے کہ گورننس بہتر ہونا چاہئے بلکہ بہترین ہونا چاہیے۔ اعتزاز احسن کی بات زیادہ تنقیدی اور شدید ہے کہ گورننس بہتر نہیں ہے۔ مگر آئی ایس پی آر کی طرف سے ایسی بات نہیں آنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نااہل ہے مگر اس ملک میں پاک فوج پر اور جرنیل پر بھی تنقید ہوتی ہے بلکہ ”صدر“ زرداری نے تو باقاعدہ دھمکیاں دی تھیں۔ کبھی کبھی دھمکی دھماکے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے مگر پاک فوج کی طرف سے کوئی ردعمل نہ آیا۔ اعتزاز کو پتہ ہے کہ وہ بھی وزیر رہا ہے اور کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔ یعنی وہ خود بھی نااہل ہے اور اسے اب امید ہے کہ پیپلز پارٹی آئی تو وہ وزیر تو بنے گا ہی؟ اور آئی ایس پی آر کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ ”صدر“ زرداری خود ہی بھاگ گئے اور دبئی میں جا کے پناہ لی۔ اب لندن کے علاوہ سیاستدانوں کی پناہ گاہ دبئی ہے بلکہ لندن سے زیادہ دلکش اور محفوظ ہے۔ سابق وزیر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر بھی صرف بیان بازی بھی خورشید شاہ، صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کی طرف سے ہوئی۔ کراچی آپریشن پر ایم کیو ایم نے بیانات ہی دیے اور کراچی شہر میں صورتحال بحال ہونے لگی ہے۔ الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطابات پر پابندی سے آسودگی کی فضا طاری ہے۔
محمود اچکزئی کی چادر پوشی مجھے اچھی لگتی ہے۔ مگر نواز شریف کے ساتھ معاملات کے بعد وہ بے اندیش دوست کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ اس محاورے کو نہیں مانتے کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہوتا ہے۔ شاید وہ دوستی میں بھی ہٹ دھرمی کے قائل ہیں۔ نواز شریف دوستوں کو نوازشوں کی بارشوں میں سرشار کر دیتے ہیں۔ ان کی نوازش ہائے بے جا کے کئی مناظر ہم نے دیکھے ہوئے ہیں۔ محمود اچکزئی صاحب اپنے سارے خاندان کے بے روزگار ہونے کی مایوسی میں مبتلا ہیں۔ پہلے بھی وہ اسمبلی کو میدان جنگ بنا دینے کے عادی ہیں۔ اب کے بھی انہوں نے اپنا کردار ”نبھایا“ ہے۔ یہ ایک دوست کا رویہ نہیں ہے؟
خواہ مخواہ کی چپقلش بڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔ پہلے بھی دو تہائی اکثریت والے نواز شریف کی حکومت گئی تھی تو ان میں کوئی ایک بھی بلکہ کوئی ایک بھی نواز شریف کے ساتھ نہ تھا۔ خود ایک بار نواز شریف نے طنزیہ انداز میں کہا تھا۔ وہ ایسی سیریس بات کو بھی خوشگوار انداز میں کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے کان میں یہ نعرے گونج رہے تھے۔ نواز شریف قدم بڑھاﺅ۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے قدم بڑھایا جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ایک بھی نہ تھا۔
پیپلز پارٹی والوں سے کوئی پوچھے کہ عظیم بھٹو صاحب کا جنازہ تھا تو اس میں کتنے لوگ شریک تھے۔ کل سات آٹھ لوگ تھے۔ دو دفعہ وزیراعظم بننے والی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو دن دیہاڑے شہید کر دی گئی تو اب تک تفتیش اور مقدمے کا کیا حال ہوا؟ جبکہ ان کے مرد اول شوہر نامدار آصف زرداری پانچ سال صدر رہے۔ آج بلاول اپنی ماں کی شہادت کا جھنڈا لے کے میدان سیاست میں ہے۔
ایک دلیر، خوددار غیرت مند بے لوث آدمی ہے نواز شریف کے پاس اور اس کا نام چودھری نثار علی خان ہے۔ وہ ہمیشہ مسلم لیگ میں رہے ہیں۔ شاید وہ واحد سیاستدان ہیں جس نے اپنی وفاداریاں نہیں بدلیں۔ وہ نواز شریف سے خفا بھی ہوتے ہیں۔ تو اس میں دلیری، دوستی اور دردمندی شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے کبھی ایسی بات نہیں کی جو سول اور ملٹری قیادت کے درمیان غلط فہمی پیدا کرے۔ دونوں کے روابط میں ہم آہنگی اور یکجہتی تشکیل دیتے ہیں۔ وہ اعتماد کے آدمی ہیں۔ ان کی ایک ملاقات نواز شریف سے ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ صورتحال سازگار ہو جائے گی۔ نواز شریف کو کدورتیں پیدا کرنے والوں سے محتاط رہنا چاہیے۔ چودھری نثار سے مربوط رہ کر وہ مضبوط ہوں گے۔ ورنہ ایک نامکمل وزیر دفاع خواجہ آصف نے کیا کچھ نہیں کہا۔ اور بھی بہت ہیں مگر ان کا ذکر بھی میں اچھا نہیں سمجھتا۔
خورشید شاہ نے بھی اقتصادی راہداری کے لیے مختلف اہم لوگوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے کہا ہے۔ بھارت پاکستان چائنہ کے مشترکہ منصوبے اقتصادی راہداری کے خلاف ہے۔ اس نے کالا باغ ڈیم کے خلاف بھی بہت سرمایہ لگایا ہے۔ کالا باغ ڈیم کے ساتھ پاکستان کی خوشحالی اور مستقبل وابستہ ہے۔
یہ بات زخمی پرندوں کی طرح پاکستان کی لہولہان صورتحال میں اڑ رہی ہے۔ یہ خبر عام طور پر ہو رہی ہے کہ بھارت نے اپنی پاکستان دشمن خفیہ ایجنسی ”را“ کے ذریعے 30 ارب روپیہ مختص کیا ہے تاکہ اقتصادی راہداری کو روکا جا سکے۔ یہ کون لوگ ہیں ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل راحیل شریف کے لیے یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ فوج قوم کی بہتری کے لیے کسی قربانی سے گریز نہیں کرے گی۔ مگر اس کے لیے جنرل راحیل شریف نے قوم کو فوج کے ساتھ یکجہتی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ نواز شریف نے بھی اقتصادی راہداری کے حوالے سے دوٹوک بیانات دیے ہیں۔ نوازشریف نے جتنی ملاقاتیں جنرل راحیل شریف سے کی ہیں اتنی بار وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ گئے ہوں گے۔ سول اور ملٹری قیادت کو ایک پیج پر لانے کے لیے ملک و قوم کا درد اور پرفارمنس بہت ضروری ہے۔
فوجی عدالتیں بنانے کے لیے تمام سیاستدانوں نے بیک زبان حمایت کی تھی۔ ایکشن پلان کے لیے بھی یہی صورتحال تھی مگر یہ کیا ہوا کہ ایک دوست نے ایکشن پلان کو الیکشن پلان کہہ دیا ہے۔ مگر اسے ریکشنری پلان بننے سے روکنا بہت ضروری ہے۔ دو ایک دنوں سے یہی بات چل رہی ہے۔ ہر جگہ آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان اور اس پر سیاستدانوں کے ردعمل پر گفتگو ہو رہی ہے۔ ردعمل ردی عمل بنتا چلا جا رہا ہے۔ ایک اہل دل انسان اور ممتاز ایڈووکیٹ منصورالرحمٰن آفریدی نے وجدانی کیفیت میں کہا کہ کبھی تو یوم حساب ہو گا۔ احتساب شروع ہونے والا ہے۔ ایماندار، محب وطن سیاستدانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کرپٹ اور نااہل سیاستدان گرتی ہوئی دیواریں ہیں اور گرتی ہوئی دیواریں ایک دوسرے کو سہارہ نہیں دے سکتیں۔ اقتصادی راہداری میں رکاوٹ ڈالنے والے ناکام ہونگے۔ پاکستان کا روشن مستقبل محفوظ ہے۔ اگلے سال کے آغاز میں ایک راز ہے۔
ایک ”بابے“ نے کہا کہ یہ سال اچھا ہے
میں یہ بار بار کہہ رہا ہوں کہ اب مارشل لاءنہیں لگے گا۔ خورشید شاہ نے اس کے لیے جو کہا ہے اس کی تشریح کسی اور طرح ہونا چاہیے۔ میرا یہ جملہ بہت معروف ہوا ہے۔ میں نے پوری نیک نیتی سے بات کی ہے۔ جنرل راحیل براہ راست سیاست میں نہ آئے مگر سیاست کو تو راہِ راست پر لائے۔ کراچی آپریشن کے خوشگوار نتائج کے لئے سب لوگوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک تعریف کی ہے۔ وہاں صوبائی حکومت کی جو ”پرفارمنس“ ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر کراچی کرچی کرچی ہونے سے بچ گیا ہے۔ جمہوریت بھی محفوظ ہے مگر صوبائی حکومت جسے جمہوریت کہتی ہے۔ وہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے قائم علی شاہ اور ”صدر“ زرداری سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوائے وقت کے سینئر صحافی نواز رضا نے پارلیمنٹ کی ڈائری میں لکھا ہے کہ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے سیاستدانوں کے دھواں دار خطاب پر اپنی رولنگ دینے سے گریز کیا۔ انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ جبکہ برادرم نواز رضا جانتے ہیں کہ رضا ربانی کو اس لیے چیئرمین سینٹ بنایا گیا ہے کہ وہ ”انٹی سٹیبلشمنٹ “ ہیں؟ ان کا رویہ متوازن تھا سیاستدانوں کو غیر متوازن غیر مناسب بلکہ غیر سیاسی رویہ نہیں اپنانا چاہیے اور غیر معمولی نہیں بنانا چاہیے۔ رضا ربانی اپنے اس جملے پہ غور کریں ”پارلیمنٹ کی مضبوطی سے آئین بالادست ہو گا۔“ پارلیمنٹ کا ذکر کہاں سے آ گیا۔