شام میں فوری جنگ بندی پر اتفاق 6ماہ میں عبوری حکومت بنے گی بشارلا سد کے مستقبل پر اختلافات برقرار
ویانا (رائٹرز + نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) آسٹریا میں مذاکرات کے دوسرے دور میں بڑا بریک تھرو ہوا ہے۔ فریقین نے شامی تنازع کے خاتمے کیلئے کوششیں تیز کرنے ‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان نے شام میں جنگ کیلئے قرارداد منظور کرنے اور فوری اقوام متحدہ کی زیرنگرانی فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ شام میں عبوری حکومت 6ماہ میں بنے گی اور انتخابات 18ماہ میں کروائے جائیں گے۔شامی حکومت حزب اختلاف سے ملاقات کیلئے رضامند ہو گئی۔مذاکرات یکم جنوری 2016ء میں شروع ہوں گے،امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے متحد ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ داعش اور النصرہ فرنٹ عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں، جنگ بندی کا اطلاق ان پر نہیں ہو گا،پیرس حملوں کے بعد دہشت گردوں کو شکست دینے کا عزم اورزیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ویانا میں ہونیوالے اجلاس میں20ممالک کے وزرائے خارجہ اور دنیا بھر کے ماہرین نے شرکت کی۔ جرمن اور امریکی وزرائے خارجہ نے تصدیق کردی ہے کہ6ماہ کے دوران شام میں عبوری حکومت قائم کردی جائے گی اور18ماہ تک عام انتخابات کرائے جائینگے۔مذاکرات کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دیگر وزراء خارجہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ شامی حکومت حزب اختلاف سے ملاقات کیلئے رضامند ہو گئی۔جان کیری نے کہا کہ مذاکرات میں شامل مندوبین شام میں جنگ بندی کیلئے رضامند ہو گئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پیرس میں حملہ داعش نے کیا۔ شامی مسئلے کے منفی اثرات پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ شام میں 6 ماہ کے اندر عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔ شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یکم جنوری کو مذاکرات ہونگے۔ بشار الاسد کے مستقبل کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ ابھی اختلافات بدستور برقرار ہیں۔ جرمن وزیرخارجہ نے کہا فرانس میں حملوں کے سبب آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوا ہے۔امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد اپنے ملک کی سول وار کے سیاسی حل کے قصے کے طورپر بامعنی مذاکرات پر غور کررہے ہیں۔ ہمارے واسطہ کاروں نے بتایا ہے کہ بشارالاسد مذاکراتی وفد بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس حوالے سے سنجیدہ ہے۔ سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا اگر بشارالاسد سیاسی عمل کے نتیجہ میں نہ ہٹائے گئے تو بے عقیدے کی مدد جاری رکھیں گے۔ انہیں زبردستی اقتدار سے الگ کیا جائے گا۔