2 بیٹیوں کیساتھ دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی: والدہ زین کوئی کتنا طاقتور ہو، سرکار ہی ملزموں کو کٹہرے میں لائے گی: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں زین قتل سوموٹو کیس کی سماعت میں جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ حکومت نے ملزموں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں کیوں نہیں ڈالے، کیا ملزموں کے فرار کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ کوئی کتنا ہی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو، سرکار ہی ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی، عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کیخلاف دائر اپیل کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ہے۔ عدالت میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر، منحرف گواہ، مقتول زین کی والدہ و دیگر پیش ہوئے۔ زین کی والدہ نے عدالت میں کہا کہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو مر گیا، یہ اللہ کی رضا ہے اور اللہ کا فیصلہ سمجھ کر ہی اسے قبول کر لیا ہے۔ دو بیٹیاں ہیں، وہ خود کو کمزور تصور کرتی ہیں، ملزموں کے ساتھ اکیلی نہیں لڑ سکتیں، کیس نہیں چلانا چاہتی جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، آپ کو کوئی پولیس والا تنگ نہیں کرے گا، آپ کو مقدمہ لڑنے کی ضرورت نہیں، یہ سرکار کا کام ہے، سرکار ہی ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔ جس انداز سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے مقدمہ چلایا موجودہ صورت حال سے لگتا ہے کہ انصاف نہیں ہوا، بادی النظر میں یہ زیادتی ہے، عدالت نے مقتول زین کی والدہ سے استفسار کیا کہ کیا ان کا بھائی سہیل اصغر ان کی مرضی سے مقدمہ میں فریق بنا، جس پر مقتول زین کی والدہ نے کہا کہ انہوں نے کسی کو کیس میں مدعی مقرر نہیں کیا ہے وہ اپنی مرضی سے مقدمہ میں فریق بن گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ہم ان چیمبر زین کے لواحقین اور گواہوں کے بیانات قلمبند کریں گے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے سماعت کے دوران پراسیکیوشن کو موقع ہی نہیں دیا اور ٹرائل کورٹ نے فیصلہ انسداد دہشت گردی کے قانون کی شق 265کے تحت سنایا ہے۔ ٹوٹل 38گواہ تھے ان میں سے 8 گواہ منحرف ہو گئے جن میں 6عینی شاہدین تھے اسی بنیاد پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ مقدمہ میں فیصلہ کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر یہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے تو کیا سپریم کورٹ ہاتھ کھڑے کرلے تو پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اس سوموٹو کے معاملہ کو زیرالتوا رکھا جاسکتا ہے۔ جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی معاملہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہو۔ پراسیکویٹر جنرل نے کہا کہ صوبائی حکومت (پراسیکیوشن) کے پاس منحرف گواہوں کے علاوہ بھی ثبوت ہیں۔ منحرف گواہ عدالت میں ہی ملزموں کے ساتھ جاکر کھڑے ہوگئے تھے۔ اے ایس آئی محبوب عالم نے ملزموں اور گواہوں کے درمیان عدالت کے اندر پیسے کا لین دین ہوتے دیکھا ہے، مقدمہ کے ایک گواہ نے کہا مصطفیٰ کانجو سے کہا تھا کہ انہوں نے اب عدالت میں بیان دے دیا ہے جس کی روشنی وہ بچ جائے گا اب وہ باقی رقم بھی ابھی ادا کردیں جس پر ایک بڑا لفافہ اس گواہ کو دیا گیا۔ جسٹس امیر مسلم ہانی نے کہا کہ اس لفافے میں رقم ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اور اس اے ایس آئی محبوب عالم کو تو وردی میں ہونا ہی نہیں چاہئے۔ گواہ ملزموں کو عدالت میں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ پہلے پولیس نے ایف آئی آر درج کی اس کے بعد گرفتار کرنا تھا تاہم تمام گواہوں نے ضمانت کروا لی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ پولیس کو پہلے ملزموں کو گرفتار کرنا چاہئے تھا اس کے بعد ایف آئی آر کاٹنی چاہئے تھی۔ اگر عدالت میں کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے تو کیا پولیس پہلے تھانے جاکر مقدمہ درج کروائے گی ؟ عدالت نے آئی جی پنجاب پولیس کو بھی حکم دیا کہ پنجاب پولیس مقتول زین کی والدہ اور بہنوں کو باحفاظت ان کے گھر پہنچائے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق زین کی والدہ نے کہا کہ دو بیٹیوں کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ نے کہا، دشمن چاہے جتنا بھی طاقتور ہو عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔