• news

سابق اٹارنی جنرل کا قتل‘ بھول جائیں پولیس کی کارروائی کا نتیجہ نکلے گا: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں سابق اٹارنی جنرل قتل سوموٹو کیس کے مرکزی ملزم روح اللہ کی گرفتاری سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہ ہے کہ آجکل کسی بھی واقعہ میں ملزمان کا ریکارڈ قبل از وقت تیار کر لیا جاتا ہے۔ قتل بعد میں ہوتا ہے‘ مقدمے کی ایف آئی آر پہلے ہی درج کر لی جاتی ہے۔ یہ بھول جائیں کہ پولیس کارروائی سے کوئی نتائج نکل سکیں گے۔ سندھ میں تو پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے ایسی وارداتیں بہت تیزی سے ہو رہی ہیں۔ مقدمہ کے ملزم روح اللہ کو پلاننگ کے تحت فرار کروایا گیا۔ یہ ایک کانسٹیبل کا کام نہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ملزم سے متعلق اڈیالہ جیل اور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ٹریٹمنٹ کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے جبکہ مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا ملزم کی افغانستان سے گرفتاری اور واپسی کیلئے پیش رفت جاری ہے۔ وہاں انٹرپول کے ساتھ ملزمان کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور ہسپتال میں داخل کرانے والے ڈاکٹر کائنات سلطانہ اور ڈاکٹر حیدر ضیغم کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ مقتول کے بیٹے ملک ابرار خان نے مؤقف اختیار کیا کہ مرکزی ملزم روح اللہ اسلحہ کا بڑا ڈیلر ہے۔ وہ ایک گینگسٹر ہے۔ اس کے اندرون ملک اور بیرون ملک ہائی پروفائل شخصیات سے تعلقات ہیں۔ میری معلومات کے مطابق وہ افغانستان میں اعلیٰ شخصیت کا مہمان بنا ہوا ہے۔ اسے مبینہ ملی بھگت سے فرار کروایا گیا۔ فرار کی پوری پلاننگ کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جرم سے پہلے اس کا پلان اور مقدمہ پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے پہلے تیار کر لیا جاتا ہے۔ بندہ بعد میں قتل ہوتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جیلوں میں جیل وارڈز کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ وارڈز نہیں ہونگے تو کل کوئی اور ملزم فرار ہو جائے گا۔ ملزم ایسا بھی کیا بااثر ہے کہ اب تک پولیس اس کو چھو تک نہیں سکی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن