تیسری جنگ!
پوپ فرانسس نے پیرس حملوں کے فوراً بعد اٹلی میں ایک ویڈیو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے پیرس میں ہونے والے حملے تیسری جنگ کا ایک حصہ ہیں۔ انگریزی زبان سے پوپ کا شائع ہونے والا جملہ یوں تھا:
" Paris attacks are a part of piecemeal third war"
یوپ کے بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو حالت جنگ میں تصور کرتے ہیں اور یہ جنگ نظریات ثقافت اور عقائد کی جنگ ہے۔ چند سال قبل ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسرسیمیوئل ایچ ہنگٹن نے ایک ہنگامہ خیز کتاب ”Clash of civilisations“ لکھی تھی اس کتاب کا ”تہذیبوں کے درمیان تصادم کے عنوان سے ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ہنگٹن کی کتاب دنیا بھر میں بحث ہوتی رہی ہے جو اب بھی جاری ہے۔ ہنگٹن کا نظریہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب دنیا میں تصادم مذہبی عقائد اور ثقافتی شناخت کی بنیادوں پر ہو گا۔ بعض سازشی نظریات رکھنے والے دانشور نائن الیون کے واقعے کو بھی تہذیبوں کے تصادم کے شعور کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق پر اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو مغربی دنیا کے لئے ایک چیلنج سمجھا گیا۔ افغانستان اور عراق پر حملے کئے گئے کھربوں ڈالر ان دو ملکوں میں دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے پر صرف کر دیئے گئے لیکن ابھی تک حتمی طورپر امریکہ اور اس کے اتحادی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ انہوں نے عراق اور افغانستان میں فوج کشی کر کے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بیخ کنی کر دی ہے۔ افغانستان میں جہاں امریکہ اور نیٹو کی فوجوں نے گزشتہ تیرہ برس سے طالبان اور دوسرے انتہا پسند گروپوں کے خلاف حملے شروع کر رکھے ہیں اور ایک مرحلہ پر یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ افغانستان سے القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کر دیاگیا ہے۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے بعد طالبان کے مختلف گروپوں نے جو حملے کئے ہیں ان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ ابھی تک افغانستان میں حالات مستحکم نہیں۔ اب تو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ عسکری امور کے ماہرین کی رائے تو یہ ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ایک مستقل حل بات چیت کے ذریعہ ہی نکالا جا سکتا ہے۔ عراق سے غیر ملکی فوجیں تو نکل گئی ہیں لیکن عراق جس افراتفری کا شکار ہے اور وہاں جو خون خرابہ ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ عراق پر چڑھائی تو کی گئی لیکن عراق کو امن اور جمہوریت دینے کا مقصد پورا نہیں ہو سکا شام کی صورت حال بھی انتہائی خون آشام ہے۔
القاعدہ کی جگہ اب داعش اور آئی ایس نے لے لی ہے۔ یہ تنظیمیں اپنے حریفوں کے خلاف القاعدہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ سفاکی کے ساتھ اپنے حریفوں پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ پوپ فرانسس نے جس piecemail تیسری جنگ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہی ہے جس میں مذہبی عقائد اور الگ ثقافتی شناخت کے حامل گروپ اپنے حریفوں سے برسرپیکار ہیں یہ ایک باقاعدہ جنگ نہیں ہے۔ لیکن جس بھی کمزور فریق کو موقع ملتا ہے اور طاقت ور حریف جسے وہ اپنا حریف سمجھتا ہے اس پر ضرب لگاتا ہے۔
پوپ فرانسس نے جس تیسری جنگ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ دنیا کے مختلف حصوں میں لڑی جا رہی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کشمیری اور کئی دوسرے گروپ بھارت کی حکومت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں شام میں بھی خوفناک خون خرابہ جاری ہے۔ یہ بے قاعدہ اور ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی جنگ دنیا کے کئی براعظموں میں نظر آتی ہے۔ پیرس پر حملوں کے بعد امریکہ فرانس اور نیٹو ملکوں نے شام میں داعش اور آئی ایس کے خلاف عسکری کارروائیوں میں شدت پیدا کر دی ہے صدر اوبامہ کا کہنا ہے کہ آئی ایس کو مکمل طورپر تباہ کر دیا جائے گا۔ آئی ایس کو کوئی باقعدہ فوج نہیں جسے عسکری حوالے سے شکست دی جائے گی یہ منظم اپنے مخصوص مذہبی نقطہ نظر اور آئیڈیالوجی بنیاد لڑ رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پیرس میں حملے کرنھے والے نوجوانوں کا تعلق بلجیئم سے تھا اور ان حملوں میں فرانس کے شہری بھی ملوث ہیں۔ پیرس حملوں کے بعد اگر اس ردعمل کا اظہار کیاجاتا ہے جس کا اظہار نائن الیون کے بعد کیا گیا تھا تو اس کے نتائج اس طرح کے ہوں گے جس طرح کے نتائج افغانستان اور عراق پرح ملوں کے بعد برآمد ہوئے ہیں۔ مغرب کی بڑی طاقتوں اور اسلامی ملکوں کو مل کر سوچنا ہو گا کہ اس تیسری جنگ کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے۔ تیسری جنگ کی اصل وجوہ اور احساسات کیا ہیں اوران کا حل کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے۔