پیپلز پارٹی کا سچا خادم مخدوم امین فہیم
مخدوم امین فہیم نے صدر مشرف کی طرف سے وزارت عظمیٰ کو ٹھکرا دیا مگر ’’صدر‘‘ زرداری نے انہیںوزیراعظم نہ بننے دیا جبکہ پیپلز پارٹی میں اس منصب کے لیے ان سے بڑا کوئی مستحق نہ تھا۔ بے نظیر بھٹو نے مخدوم صاحب کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کا صدر بنایا ورنہ آئینی طور پر پی پی پی الیکشن نہ لڑ سکتی تھی۔ چوتھی پی لگی اور مخدوم صاحب اس کے صدر بنے۔ یہ اعتماد کی آخری حد ہے اور مخدوم صاحب نے کوئی حد پار نہ کی۔ ہماری سیاسی تاریخ بھی کیسے کیسے مفاد پرست لوٹوں سے بھری پڑی ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے لیے بیک وقت دو عہدوں کا تنازع چلا تو وکیل نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے صدر تو مخدوم امین فہیم ہیں صدر زرداری تو ایک این جی او کے شریک چیئرپرسن ہیں۔ صدر زرداری نے بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ایک کرپٹ این جی او بنا دیا ہے۔ بلاول سیاسی رول ماڈل کے لیے شہید بی بی اور مخدوم امین فہیم کو سامنے رکھے۔
یہ اعزاز ’’صدر‘‘ زرداری کو ملا کہ ان کے وزیراعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل کر دیا۔ اس کے بعد بھی صدر زرداری نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنا دیا جو مخدوم صاحب کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جنرل کے لفظ کی بھی ایک دہشت ہے؟ پی پی پی پی کے صدر کی صدارت اتنی صفائی سے اڑا کے بلاول کو چیئرمین بنا دیا اور خود شریک چیئرمین بن گئے۔ اب تک ’’شریکہ‘‘ پارٹی میں کامیاب ہے۔ مخدوم صاحب صدر تھے اور نہیں بھی تھے۔ شیری رحمان کو ’’صدر‘‘ زرداری نے کوئی عہدہ مخدوم صاحب کو بتائے بغیر دے دیا۔ وہ بے چین ہوئے اب تو ان کی روح بھی بے چین ہو گئی ہو گی کہ شیری رحمان کو پی پی پی پی کا صدر بھی زرداری صاحب نے مخدوم صاحب کے قبر میں اترنے سے پہلے بنا دیا ہے۔
مخدوم صاحب پارٹی کے ممنون حسین تھے کوئی صدر ممنون حسین اور ’’صدر‘‘ زرداری کا موازنہ کر کے دکھائے۔ کوئی وزیراعظم گیلانی اور نواز شریف کا موازنہ کر کے دکھا دے؟ ’’صدر‘‘ زرداری صرف اختیار کے قائل ہیں۔ ناجائز اور غیرآئینی؟ وہ بے اختیاری کی لذت کو جانتے ہی نہیں۔ کبھی مخدوم صاحب سے پوچھا ہوتا؟
مینوں لگ گئی بے اختیاری
صدر زرداری مخدوم صاحب کا جنازہ دیکھتا۔ بغیر کسی موازنے کے لکھ رہا ہوں کہ امام احمد بن حنبل نے کہا تھا یہ جنازہ ثابت کرے گا کہ سچا کون ہے۔ مخدوم صاحب کے جنازے نے ثابت کر دیا کہ وہ وفا حیا والے اور دل والے عظیم آدمی تھے۔ وہ صحیح معنوں میں بھٹو فیملی اور پیپلز پارٹی کے محسن تھے اور سچا محسن احسان کر کے جتاتا نہیں ہے۔ وہ احسان کرتے تھے جیسے کوئی فرض ادا کر رہے ہوں۔
بلاول ان کے جنازے میں پہنچا وہ لوگوں کے ہجوم میں دھکے کھاتے ہوئے شریک ہوا۔ اسے معلوم ہوا ہو گا کہ بڑا آدمی کیا ہوتا ہے۔ مجھے بلاول کی یہ بات اچھی لگی۔ کل کے کالم میں پہلا جملہ میں نے لکھا تھا کہ بلاول مجھے اچھا لگتا ہے۔ آج مجھے تسلی ہو گئی۔ اتنا بڑا ہجوم سیاسی مقبولیت سے زیادہ ان کے لیے پیرانہ عقیدت کا مظاہرہ تھا۔ وہ سروری جماعت کے روحانی پیشوا تھے۔ سروری جماعت نے مخدوم امین فہیم کے والد مخدوم طالب المولیٰ کی قیادت میں بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کو صدر ایوب کی کارروائیوں سے بچایا۔ پھر یہ کام مخدوم امین فہیم نے کیا۔ مگر ان کے ساتھ ’’صدر‘‘ زرداری نے کیا کیا؟
میں نے تجھ کو دل دیا تو نے مجھے رسوا کیا
میں نے تجھ سے کیا کیا اور تو نے مجھ سے کیا کیا
مخدوم صاحب نے زرداری صاحب کے اس جملے کا پاس رکھا کہ ہمارے آئندہ وزیراعظم مخدوم امین فہیم ہوں گے۔ ان کا قومی جرم اس سے بہت بڑا ہے کہ انہوں نے ایک خود ساختہ وصیت کے خلاف آواز نہ اٹھائی۔ پارٹی میں یہ کام صرف مخدوم صاحب کر سکتے تھے۔ تب تک وہ پارٹی کے صدر تھے۔ صدر انہیں بے نظیر نے بنایا تھا۔ وہ بات کرتے تو بات بہت دور تک جاتی۔ مخدوم صاحب بی بی کے صدر تھے۔ زرداری صاحب بی بی کے شوہر تھے؟ مگر ایک دوسری بات کہ مجھے بہت دکھ ہوا کہ گیلانی کے مقابلے میں وزیراعظم کے زیادہ حقدار آدمی وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں ایک معمولی وزیر شذیر بن گئے اور پھر اپنے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں بھی موجود رہے۔ وہ بہت مروت والے آدمی تھے مگر سیاست میںاس طرح کی مروت مخدوم صاحب کو زیب نہ دیتی۔ ان کا دھیما پن ان کی شخصیت کو دلکش بناتا تھا۔ وضعداریوں نے ان کو کمزور کیا مگر وہ خود غرض کبھی نہ تھے۔ بھٹو فیملی سے ان کی فیملی کے روابط تھے جو انہیں نے نبھائے اور خوب نبھائے۔
وہ شاعر بھی تھے اور موسیقی سے بھی عملی طور پر وابستہ تھے، اس چیز نے بھی ان کی شخصیت اور سیاست کو ایک دلآویز نرمی عطا کی تھی۔ وہ ایک مہذب سیاستدان تھے۔ سنا ہے وہ ایک بڑے جاگیر دار بھی تھے۔ لاکھوں مرید بچوں کی طرح ان کے اشارے پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتے تھے۔ پیر پگاڑا کے پاس تو حروں کی باقاعدہ فوج ہے مگر سروری جماعت مخدوم صاحب کی اطاعت کے لئے کم نہ تھی۔ ان میں پیروں والا دبدبہ نہ تھا۔ ان سے مل کر محسوس نہ ہوتا تھا کہ کسی ڈاہڈے آدمی سے مل رہے ہیں۔
برادرم منیر احمد خان پیپلزپارٹی میں مخدوم صاحب کے دوستوں میں سے تھے۔ خان صاحب نے گھر میں دعوت کی مخدوم صاحب بھی آئے۔
دوستوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے میرے پاس آ کے رک گئے۔ بہت اپنائیت سے میرے کالموں کے لئے تعریفی کلمات کہے جو مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔ مگر وہ الفاظ یہاں نہیں لکھوں گا۔ ان کی محبت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ برادرم شیخ ریاض کے ٹی وی پر سارا دن ان کے لئے نشریات چلتی رہیں میں نے کوئی اور ٹی وی نہ لگایا۔ شیخ صاحب نے اچھا کیا۔