• news
  • image

”وزیراعظم کی اچھّی اچھّی باتیں؟“

چودھری محمد سرور کے گورنرشِپ سے مستعفی ہونے کے بعد، جنوبی پنجاب (ملتان) کے معروف وکیل ملک محمد رفیق رجوانہ نے 10 مئی کو نئے گورنر کی حیثیت سے حلف اُٹھایا اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کو گواہ بنا کر تقریبِ حلف برداری سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”مَیں آئینی حدود میں رہ کر شریف برادران کی قیادت میں اُن کے شانہ بشانہ پنجاب خاص طور پر جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیاں دُور کرنے کی کوشش کروں گا“۔ کل (21 نومبر کو) جناب وزیراعظم نے ”مُلتان خانیوال موٹروے“ کا افتتاح کِیا تو مجھے ملک رجوانہ بہت یاد آئے کہ اُن کی کوششوں سے کم از کم جنوبی پنجاب کے عوام کی ایک محرومی تو دُور ہوگئی لیکن شاید میری دُور کی نظر کمزور ہونے کے باعث مجھے رجوانہ صاحب افتتاحی تقریب میں کسی نیوز چینل پر جنابِ وزیراعظم کے دائیں بائیں دکھائی نہیں دئیے۔ 

میاں نواز شریف نے اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے پہلے دَور میں جب موٹروے کے منصوبے پر عملدرآمد کِیا تو مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت (خان عبدالولی خان کی) نیشنل عوامی پارٹی کے وفاقی وزیرِ مواصلات جناب محمد اعظم خان ہوتی نے میاں صاحب کو شیر شاہ سُوری ثانی کا خطاب دِیا تھا لیکن موجودہ دَور میں جناب وزیراعظم کے اتحادی مولانا فضل اُلرحمن نے تو نہیں لیکن اُن کی جمعیت عُلماءاسلام کے ایک لیڈر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے (جنہوں نے فرمایا تھا کہ ”پاکستان کی خیریت چاہتے ہو تو طالبان سے مذاکرات کرو“)۔ ”فلسفہ¿ موٹروے“ کو ایک نئے اندازمیں بیان کِیا ہے۔17 فروری کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا شیرانی نے کہا تھا کہ ”ملکی سیاست منافقت کا ملغوبہ ہے۔ جمہوریت نے مُلک کو کچھ نہیں دِیا۔ ہمیں شریعت کو اپنانا ہوگا۔ شریعت جو موٹروے کی طرح کھُلا راستہ ہے“۔
مُلتان موٹروے کی افتتاحی تقریب میں جناب وزیراعظم نے شریعت کے نفاذ کی بات نہیں کی (حالانکہ لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز کا فتویٰ موجود ہے کہ ”اگر میاں نواز شریف شریعت نافذ کردیں اور ”امیراُلمومنین“ بن جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا“)۔ جنابِ وزیراعظم نے صِرف جمہوریت کی بات کی ہے۔ موٹروے بنا کر لوگوں کے دِلوں کے فاصلے کم کرنے کا کریڈٹ بھی لِیا اور میڈیا کو بتایا کہ ”پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے دونوں مرحلوں میں عوام نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے نامزد امیدواروںکو کامیاب بنا کر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے ”حِساب“ ( یعنی انتقام) لے لِیا ہے“۔ پنجاب میں دوسرے نمبر پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کِس کِس سیاسی جماعت سے حِساب لِیا؟ جنابِ وزیراعظم نے یہ بھی نہیں بتایا۔ سوال یہ بھی ہے کہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مسلم لیگ کے بجائے دوسری سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدواروں اور بھاری اکثریت سے آزاد امیدواروں کو کامیاب بنا کر عوام نے کِس کِس سے حساب لِیا ہے؟
خبروں کے مطابق وزیراعظم خانیوال کے قریبی گاﺅں”شام کوٹ“ سکول کے بچوں ( طلبہ¿ اور طالبات ) نے ”وزیراعظم نواز شریف زندہ باد“ کے نعرے لگائے جِس سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں ترقی اور بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی کامیابی کے ذریعے ترقی نہ چاہنے والوں سے ”حِساب لئے جانے کی خبر“ بچے بچے تک پہنچ چُکی ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”جنابِ وزیراعظم نے بچوں کے ساتھ مِل کر ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگوائے۔ وزیراعظم نے بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم کو بھی یاد کِیا اور کہا کہ ”قائداعظم کے دَور میں عوام میں فاصلے نہیں تھے“۔ جناب وزیراعظم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یاد کِیا اور اُن کا نام لئے بغیر کہا کہ قائداعظم کے بعد اُدھر تم، اِدھر ہم کے نعرے لگائے گئے۔
1970ءکے عام انتخابات کے بعد چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر صدر جنرل یحییٰ خان اور جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی، شیخ مجیب اُلرحمن کی ”عوامی لیگ“ کو اقتدار منتقل نہیں ہونے دِیا تھا اور اپنی پارٹی کو قومی اسمبلی میں ”دوسری بڑی پارٹی“ کا نام دے کر اقتدار میں شرکت کا دعویٰ کردِیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان انتخابات کے بعد خود صدرِ مملکت منتخب ہونا چاہتے تھے۔ شیخ مجیب اُلرحمن راضی نہیں ہُوئے۔ جنابِ بھٹو، جنرل یحیٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بن گئے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن ہُوا تو جناب بھٹو نے کہا کہ ”خُدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا“ حالانکہ اُس وقت پاکستان کو دولخت کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔
فی الحال سکول کے بچوں کو پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ کا عِلم نہیں ہے لیکن بلدیاتی انتخابات کے دونوں مرحلوں کے نتیجے میں پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں ”بھٹو ازم“ کی علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی (بلدیاتی سطح پر) بڑی پارٹیاں بن کر ابھری ہیں اور جب دونوں صوبوں سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار اِن پارٹیوں میں رونق بڑھائیں گے تو پنجاب اور سندھ میں بھی نعرہ لگائے بغیر ”اُدھر تم اور اِدھر ہم“ کی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی لیکن یہ سب جمہوریت کے تسلسل کے لئے ہُوا یا مفاہمت کے نام پر ۔ایہ الگ بات کہ اب مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی، قومی پارٹیاں نہیں رہیں۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف 11 مئی 2013ءکے انتخابات کے دَوران انتخابی مُہم میں کہا کرتے تھے کہ ”مَیں قوم کی لوٹی ہُوئی دولت وصول کرنے کے لئے صدر زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا“ لیکن پھر میاں نواز شریف نے برادرِ خورد کو بتایا کہ ”جناب آصف زرداری منتخب صدر ہیں اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹا نہیں جا سکتا“۔ پھر میاں شہباز شریف نے ”گھسیٹا گھسیٹی“ کا فلسفہ ترک کر دِیا۔ اُن کے قانونی مشیروں نے بھی انہیں بتایا کہ ”1973ءکے ”متفقہ آئین“ کے تحت اسلامہ جمہوریہ پاکستان کے کسی بھی صدر کو (خواہ وہ سابق ہی کیوں نہ ہو جائے) سڑکوں پر گھسیٹنے کی کوئی شِق نہیں ہے“۔ جنابِ زرداری نے محض احتیاط کے طور پر اپنا ڈیرہ دُبئی میں بسا لِیا ہے۔
سکولوں کے سب بچوں کو اُن کے اساتذہ، قائداعظم کی قومی خدمات کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ جناب وزیراعظم کے مُنہ سے قائداعظم کا نام سُن کر بچے بہت خوش ہُوئے ہونگے جیسے پاکستان کے سب لوگ اپنے ہر کرنسی نوٹ پر قائداعظم کی تصویر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ قوم اور اُس کے بچوں کو اور کیاچاہئے؟ لیکن بچوں کو یہ بتانا مناسب نہیں ہے کہ ”قائداعظم نے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا کیونکہ اِس طرح کی باتیں سُن کر آج کے بچوں (یعنی کل کی جوان نسل) میں ترقی کرنے کا شوق اور جذبہ ختم ہو جائے گا اور وہ اپنے بڑے سیاستدانوں کی طرح ”ترقی“ نہیں کر سکیں گے۔ میرے خیال میں عمران خان کی سابقہ بیوی ریحام خان کے ٹوئٹ پر لِکھے جانے والے شعر....
دوست بن کر بھی نہیں، ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
صِرف عمران خان کے لئے بلکہ ہر حکمران کے لئے ہو سکتا ہے لیکن اِس طرح کی باتیں بچوں کو بتانا مناسب نہیں۔ بچوں کو نہ صرف وزیراعظم میاں نواز شریف کی بلکہ ہر وزیراعظم کی اچھی اچھی باتیں بتانا چاہئیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن