• news

غداری کیس : ایف آئی اے کو دوبارہ تحقیقات کا حکم‘ جے آئی ٹی کیلئے مشرف کی درخواست مسترد

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) خصوصی عدالت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے ایف آئی اے کو مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے تازہ بیانات ریکارڈ کرکے ازسرنو تحقیقات کرنے کا حکم جاری کےا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے آئندہ سماعت پر تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے، اگر تحقیقات مکمل نہ بھی ہوں تو پیشرفت سے متعلق عدالت کو آگاہ کےا جائے، تحقیقات کس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور انکوائری ٹیم نے کس کس کے بیانات کو ریکارڈ کیا ہے ایف آئی اے کو کیس کی کی تحقیقات کے دوران وسیع اختےارات حاصل ہوں گے وہ کسی بھی محکمہ کا ریکارڈ چیک کرسکتا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت محسوس کرتی ہے کہ بادی النظر میں ہائی کورٹ کا فیصلہ مہببم ہے واضح نہیں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17دسمبر تک ملتوی کردی ہے۔ مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس یہ اختےار نہیں کہ وہ مشرف کو سنگل آوٹ کرتے ہوئے کارروائی کرے، آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت مکمل اور شفاف انصاف کے تقاضے تب ہی پورے ہوں گے جب مشرف سمیت کیس کے دیگر ملزموں کے خلاف یکساں کارروائی ہو، ایف آئی اے پر پولیس ایکٹ لاگو نہیں ہوتا اس لئے کوئی بھی تحقیقاتی ادارہ کیس کی تفتیش کرسکتا ہے لہٰذا کیس کی دوبارہ تحقیقات کی جائے جس کیلئے تحقیقاتی ایجنسیوں کا مشترکہ کمیشن تشکیل دیاجائے جوایم آئی، آئی بی اورایف آئی اے پرمشتمل ہو، اس حوالے سے خصوصی عدالت کے بارے میں قانون بھی مشترکہ ٹرائل کی بات کرتا ہے جبکہ استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی موقف اختےار کےاتھا کہ وہ ازسرنو تحقیقات کے لئے راضی ہے، ملزم اپنے اپنے نئے بےانات ریکارڈ کروائیں اور تحقیقات میں تعاون کریں۔ سابق صدرکے وکیل نے موقف اختےار کےا کہ حکومت یا کسی شخص کی منشا پر تحقیقات نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی افسر اپنی مرضی پر تحقیقات کر نے کامجاز ہے یہ فیصلہ عدالت خود کرتی ہے ورنہ اگر ناقص تفتیش پر تفتیش کاروں کواس کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں سابق صدر کے خلاف تحقیقات پرتخفظات کااظہارکیا اورہدایت کی اس حوالے سے دوبارہ تحقیقات کی جانی چاہئے اس لئے جن لوگوں نے غلط تحقیقات کی ہیں ان کےخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ دوبارہ تحقیقات کے عدالتی حکم سے سابق صدرکیخلاف سنگین غداری کی یہ شکایت غیر موثر ہو گئی ہے لہٰذا اسے خارج کیا جائے۔ استغاثہ کی جانب سے چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے موقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اختیارات سے تجاوز ہے، ہمیں اس فیصلے پر تحفظات ہیں، وفاق اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف بہت جلد اپیل دائر کرے گا۔ انہوں نے بتایاکہ سپریم کورٹ کا سترہ رکنی بینچ واضح کرچکاہے کہ صرف مشرف ہی 3 نومبر کے واقعہ کے ذمہ دار ہیں،جس کے پیش نظر مشترکہ ٹرائل کی ضرورت نہیں بنتی، جبکہ اس سے قبل یہی عدالت بھی کہہ چکی ہے کہ تحقیقات صرف ایف آئی اے کرسکتی ہے اس لئے تحقیقات میں کسی دوسری ایجنسی کو شامل نہیں کیا جا سکتا اور وفاقی حکومت آئین سے انحراف کرنے والے کے خلاف کارروائی سے پہلو تہی نہیں کر سکتی۔ 11دسمبر 2013ءکو خصوصی عدالت نے کیس شروع کےا اس سے پہلے کیس التواءکا شکار تھا اب حکومت طے کرچکی ہے کے وہ ازسرنو تحقیقات کرے گی۔ خود تفتیش جوائن کرکے شریک ملزموں کی نشاندہی کریں گزشتہ تفتیش میں بھی مشرف سمیت دیگر ملزموں کی جانب عدم تعاون کارویہ اختےار کےا گےا تھا، پہلے جس جے آئی ٹی نے تحقیقات کی تھی ان سے وزارت داخلہ نے رابطہ کےا اور تفتیش سونپنا چاہی تو تینوں افسروں نے انکار کردےا ہے،اکرام شخ نے کہا کہ وہ تحفظات کا شکار ہیں اس سے پہلے مشرف حملہ کیس میں ملزموں کو تختہ دار پر لٹکادےا گےا جبکہ کچھ متعلقہ افراد لاپتہ ہوگئے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نئی تفتیش کے لئے نہیں کہا بلکہ تفتیش کو مکمل کرنے کی بات کی ہے کہ جاری تفتیش کو حتمی نتیجہ تک پہنچاےا جائے، پہلے مشرف کے وکلاءنے اعتراض کےا تھا کہ کیس فوجی عدالت میں چلے گا ےا خصوصی عدالت میں، فیڈرل گورنمنٹ سب کی ہے اس کی پاور کسی کی ذات کےلئے استعمال نہیں ہوسکتیں۔ گزشتہ روز خصوصی عدالت کا حکم رجسٹرار نے پڑھ کرسناےا۔
غداری کیس

ای پیپر-دی نیشن