’’385 ملین ڈالر کا ٹیکہ ‘‘
گرمی کی شد ت میں کمی کے باعث بجلی کے استعمال میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے لیکن اسکے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ ابھی بھی جاری ہے۔ نیز موجودہ حکومت تقریباً ہرماہ بجلی پیدا کرنے کیلئے نئے منصوبوں کا اعلان کر رہی ہے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ 2011 میں جو 95 بلین کلوواٹ بجلی پیدا ہو رہی تھی وہ ابھی تک 95 بلین کلوواٹ ہی ہے اس میں ایک کلوواٹ کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ گو پی ایم ایل (ن) نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے 2013 میں موجود بجلی کے 480 بلین روپے کے CIRCULAR DEBT یعنی گردشی قرضے ادا کئے لیکن عالمی بینک کیمطابق گردشی قرضہ اب 661 بلین تک پہنچ چکا ہے۔ مزید برآں گو پچھلے چار سالوں میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا اور ہمارے صنعتی شعبے کو مہیا کی جانیوالی بجلی کا Tarrif یعنی نرخ بنگلہ دیش اور بھارت سے 100 فی صد زیادہ ہے جسکے نتیجے میں ہماری برآمدات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ مثلا پچھلے سال ستمبر سے12 ماہ کے دوران برآمدات کی مد میں 17 فی صد کی خطیر کمی ہوئی ہے۔ کیونکہ روئی کی برآ مد قیمت کے حوالے سے 29فی صد اور حجم کے حوالے سے 13 فی صد کم ہوئی۔ سوتی کپڑے کی برآمدات قیمت کے حوالے سے 38فی صد اور تولیے کی برآمد بھی 24فی صد کمی کا شکار ہوئی ۔ ٹیکسٹائل کے علاوہ سیمنٹ کی برآمد میں 34 فیصد ، انجینئرنگ کے آلات میں 27 فی صد، زیوارت میں 70 فی صد اور جوتوں کی برآمد میں بھی 27 فیصد کمی ہوئی۔ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے نندی پور میں قائم کئے جانیوالے بجلی گھر کے بارے میں ملک میں کافی ابہام پایا جاتا ہے اس سلسلے میں اصل حقائق درج ذیل ہیں۔اول:3 دسمبر 2007 میں (PEPCO) یعنی پاکستان پاور کمپنی کے سربراہ نے LUOXIAMOING جو کہ TERNAL DONGFANG ELECTRIC CORPORATION کے جنرل منیجر ہیں کو خط کے ذریعے کمپاونڈ سائیکل پاور پلانٹ جو کہ نندی پور میں نصب کیا جانا تھا کی خرید کیلئے لکھا۔ اس خط کے جواب میں کہا گیا کہ : 3 دسمبر کو ہونے والی PEPCO کے بورڈ آف ڈائریکڑز کی میٹنگ میں فیصلے کے مطابق آپ کو اس بجلی گھر کے مہیا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس خط کے پیر اگراف C کی رو سے اس کی کل قیمت 329 ملین ڈالر دی گئی اور اس قیمت کو بجلی اور پانی کی وزارت کی اجازت حاصل تھی۔ دوم: مئی 2014 میں نندی پور پاور پر اجیکٹ کے سربراہ نے نیپرا کو ایک عرض داشت پیش کی جس میں نندی پور بجلی گھر کی کل قیمت 847 ملین ڈالر تک پہنچ گئی یعنی نندی پور بجلی گھر کی 390 ملین ڈالر ابتدائی قیمت اور 847 ملین ڈالر کی رقم جو ناردرن پاور جنریش کمپنی نے بڑھا کر وصول کی اُس میں 518 ملین ڈالر کا فر ق ہے۔ اب اس پر اجیکٹ کی مد میں ہونیوالے آڈٹ میں اس بات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے کہ اتنی خطیر رقم کا فرق کیوں پیدا ہوا کیونکہ اس کا خمیازہ پچھلے 8 سالوں سے ملک کے ٹیکس دہندگان کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور اس سلسلے میں آڈیڑر جنرل کی طرف سے دی جانیوالی رپورٹ کے مطابق 518 ملین ڈالر کی قیمت میں فرق کی وجہ INFLATION یعنی افراط زر اور پاکستان روپے کی ڈالر کے مقابلے قیمت کی کمی قرار دے رہے ہیں جو کہ سرا سر غلط بیانی پر مبنی ہے۔ قیمت کا 329 ملین ڈالر سے بڑھ کر 847 ملین ہو جانے کا افراط زر اور پاکستانی روپے کی قد ر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔
قارئین! توانائی اور خصوصی طور پر بجلی کی کمیابی سے ملک کو بہت زیادہ نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں نندی پور پاور پراجیکٹ کے بارے میں وزیر بجلی اور پانی نے بڑے فخر سے قوم کو بتایا کہ اب اس بجلی گھر سے حامل ہونیوالی بجلی اُن کے استعمال کیلئے موجود ہے لیکن حقیقت ہے کہ 20 مئی 2014 کو ناردرن پاور جنریشن کمپنی جو نندی پوربجلی گھر کی مالک ہے کے چیف ایگزیکٹیو نے نیپرا کو مطلع کیا کہ بجلی کی پیداواری قیمت 18.17 فی کلوواٹ ہے۔وزیر بجلی اور پانی کا یہ کہا درست اور حقیقت پر مبنی ہے نندی پور 425 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت کو ہر ماہ 2.5 بلین کی سبسڈی یعنی قیمت کم رکھنے کیلئے امداد دیناپڑیگی جو کہ سالانہ30 بلین روپے کی امداد ہو گی یا پھر دوسری صورت میں گردشی قرضے میں 30 بلین روپے سالانہ کا اضافہ ناگزیر ہو جائیگا یہا ں پر امر قابل ذکر ہے کہ 21 مئی 2013 میں PUBLIC PROCUREMENT REGULATORY AUTHORITY یعنی (PPRA) نے ڈونگ ننگ الیکٹرک کمپنی کو ’ ’ بلیک لسٹ‘‘ کر دیا اور دیگر تمام کمپنیوں کو متنبہ کیا کہ وہ اس ادارے سے کوئی کاروبار نہ کریں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غربت اور افلاس سے پریشان حال عوام کیلئے 518 بلین ڈالر کی رقم کا ’’ٹیکہ‘‘نا قابل برداشت حد تک مہنگا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ کے ۔پی۔ کے۔ کے 28 ملین آبادی کیلئے صحت کا بجٹ صرف 300 ملین روپے ہے اور بلوچستان کے 13 ملین افراد کیلئے تعلیم کا بجٹ صرف 385 ملین روپے ہے۔ آخر یہ ملک اس قسم کی حماقتیں اور بدعنوانیاں کب تک برداشت کر سکتا ہے۔ کیا ان حماقتوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں؟ صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ہمارا پروردگار ہمارے لیڈرز کو عقل ، شعور اور ملک کی ترقی کیلئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین