گُڈ خان …گُڈ لک!
’’گُڈ خان اغوا ہونے کے چھ ماہ بعد بازیاب ہوئے۔‘‘ یہ فقرہ کوزے میں سمندر بند کرنے کے مصداق ہے۔ سمندر میں طلاطم، طوفان، جوار بھاٹا، مدوجزر سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ کہنا کتنا آسان ’’حضرت یوسف اپنے باپ سے بچھڑے اورپھر مل گئے‘‘۔ ان برسوں میں جو باپ پر بیتی وہ ایک الم ناک باب ہے۔ چھ ماہ کے عرصے کا ایک ایک لمحہ گُڈ خان اور انکے خاندان پر کرب، عذاب اور قیامت سے کم نہیں تھا۔ جمیل حسن خان عرف گُڈ خان کو 13 مئی 2014ء کو موٹروے سے اغوا کیا گیا۔ یہ اغوا برائے تاوان تھا۔انکو بلاتاخیر خیبر ایجنسی منتقل کر دیا گیا۔ اہلیہ نے پولیس کو اطلاع دیدی، میڈیا میں معاملہ آ گیا۔ ایم پی اے کا اغوا حکومت کی رسوائی بھی تھی۔ شہباز شریف نے سخت نوٹس لیا تو حکومتی مشینری کے کل پرزوں کو متحرک ہونا پڑا۔ اغوا کار حکومت کی فعالیت پر پریشان ہوگئے۔ طالبان انکے پشت پناہ نہیں تھے۔ مغوی کے خاندان اور اغوا کاروں کے مابین عیسیٰ خان رابطہ کار کا کام کرتا تھا۔ عیسیٰ خان پختونخوا ملی عوامی پارٹی (محمود اچکزئی) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ چکے ہیں۔ وہ 7 سو ووٹوں سے ہارے تھے۔ عیسیٰ خان سے رابطہ کیا گیا اس دوران حکومت کے دبائو پر قانون نافذ کرنیوالے ادارے بھی اغوا کاروں کے تعاقب میں تھے۔ دو کو پکڑا بھی گیا۔ یہ ادارے گُڈ خان تک پہنچنے والے تھے۔ خطرے کا ادراک کرکے اغوا کاروں نے جمیل حسن کو پاکستانی طالبان کے حوالے کر دیا۔
عیسیٰ خان پر حکومت کا دبائو تھا کہ وہ گُڈ خان کو بازیاب کرائے۔ گُڈ خان طالبان کے حوالے کیے گئے تو عیسیٰ خان نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ اس پر عیسیٰ خان کے خاندان کو پولیس نے اٹھا کر غائب اور ان کی رہائی کو گُڈ خان کی بازیابی سے مشروط کر دیا۔ یہاں ذرا رُکیں، سوچیں ہمارا بچہ، بھائی، باپ یا خاندان کا کوئی فرد لاپتہ ہو جائے تو دل و دماغ پرکیا گزرتی ہے! گُڈ خان کی فیملی پر چھ ماہ یہی کیفیت رہی۔ اب عیسیٰ خان کو قیامت کا سامنا تھا۔ اس نے گُڈ خان کی بازیابی کیلئے طالبان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اڑھائی کروڑ پر رہائی پر رضامندی ظاہر کی۔ عیسیٰ خان کو اپنے خاندان کی رہائی مقصود تھی اس نے اڑھائی کروڑ کا بندوبست کیا اور رقم خود طالبان کو دینے اور گُڈ خان کو لینے چلے گیا۔ اس پر بھی خاندان کی جدائی کا ہر لمحہ بھاری پڑ رہا تھا۔ وہ فوری طور پر اپنے پیاروں کو مصیبت سے نکال کرآسائش گھر میں لانا چاہتا تھا۔ طالبان نے اس سے رقم وصول کی اور رقم کے ساتھ اسے بھی وہیں رکھ لیا۔ ایک کمرے میں گُڈ خان پابہ زنجیر تو دوسرے میں عیسیٰ خان بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔
پاکستانی طالبان کی جیل پاکستان افغان سرحد پر دریا کے دوسری طرف تھی۔ اُدھر طالبان بیٹھے اِدھر پاک فوج تعینات ہے۔ درمیان میں فاصلہ ایک کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ طالبان قیدیوں پر سختی نہیں کرتے تھے۔ یہاں تنہائی اور انجانا خوف موت بن کر سایہ فگن رہتا ہے۔ طالبان کی اس جیل کے بارہ کمرے تھے۔ 10 بائی 12 کا کمرہ اسی میں ایک طرف 6 انچ اونچا کُھراتھا۔ امریکہ کو اس جیل کا نقشہ ملا تو ایک روز شیلنگ شروع کر دی۔ گُڈ خان دیوار کے ساتھ کُھرے کی آڑ لے کر لیٹ گئے۔چہرے کے سامنے پانی کا ڈبہ رکھ لیا۔ پائوں میں بیڑی، ٹانگ کو زنجیر (سنگل) کے ذریعے چھت سے باندھا گیا تھا۔ گولیاں مسلسل چھ گھنٹے برستی رہیں۔ ہزاروں گولیاں کمرے کے اندر گریں بارود کی بو کمرے میں بری طرح پھیل گئی۔ قیدی گولیوں سے محفوظ رہا تو اسے دھواں اور بو نگل رہی تھی۔ سانس بند ہونے لگا۔ موت پہلے ہی سامنے تھی جو اب شہ رگ سے بھی قریب محسوس ہونے لگی۔ اسی دوران ایک گولہ چھت کو پھاڑتے ہوئے فرش پر گرا۔ یہ گولہ موت کے بجائے حیات افروزثابت ہوا۔ سارا دھواں اور بو گولے سے ہونیوالے سوراخ سے باہر نکل گئی۔ بمباری کرنیوالوں نے سمجھ لیا کہ ہر ذی روح بے روح ہو گیا ہے تو اس خدشے کے پیش نظر کہ دوبارہ اس عمارت کو استعمال کیا جا سکتا ہے، عمارت مسمارکرنے کیلئے ڈرون سے میزائل داغے گئے۔ ایک میزائل گُڈ خان کے کمرے کی دیوار پر 4 فٹ اونچا آ کے لگا جس کا ملبہ ان پر گرا، جب ہوش آیا تو طالبان آوازیں دے رہے تھے۔ جیل میں 10قیدیوں کی نگرانی پر 4 طالبان تعینات تھے۔ 6 قیدی اور دو طالبان حملے میں مارے گئے۔ عیسیٰ خان بھی بچ گیا تاہم اگلے حملے میں ہلاک ہوا۔ اسکے بعد قیدیوں کو افغان طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔
گُڈ خان کوایک دن پیغام ملا… کل امیر کے سامنے پیش ہونا ہے۔ بڑے ہال میں امیر اور ارد گرد طالبان بیٹھے تھے، ماحول کشیدہ اور ناخوشگوار تھا۔ امیر خالد عمر خراسانی نے کھڑے ہو کر ہاتھ ملا کر گُڈ خان کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ دو گلاس جوس منگوا کر خود پیا اور قیدی کو دیا۔ پھر گویا ہوئے…’’آپکے اور میرے لیے اچھی خبر نہیں ہے‘‘۔ ساتھ ایک لکیروں والی کاپی کا ورقہ ان کی طرف بڑھا دیا جس پر چند دستخط تھے، یہ جرگے کا فیصلہ تھا ’’جمیل حسن خان کو سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے، اس لئے کہ حکومت پاکستان نے ہزاروں طالبان کو قتل کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے، جمیل حسن اس حکومت کا حصہ ہیں‘‘۔ ان کو یہ بھی بتا دیا گیاکہ سر قلم کرنے کی ویڈیو بنا کر میڈیا کو جاری کی جائیگی۔ امیر نے گُڈ خان سے پوچھا ’’آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں‘‘۔ جمیل حسن نے پوچھا کہ طالبان کا پاکستان میں کہاں کہاں نیٹ ورک ہے۔ امیر نے دیگر شہروں کے ساتھ شیخوپورہ اور فیصل آباد کا نام بھی لیا تو گُڈ خان نے کہا ’’میں شراب نہیں پیتا، زانی نہیں ہوں، حکومت یا کسی بھی فرد کا ایک پیسہ تک نہیں کھایا۔ آپ تصدیق کرا لیں اگر یہ درست ہے تو میں ایک ادنیٰ سا مسلمان تو ہوں۔ اس پر امیر نے کہا دیکھ لو اگر ایسا نہ ہوا تو سر اتار دینگے۔گُڈخان نے کہا پھر مجھے مرنے پر دکھ نہیں ہو گا۔ امیرخالد عمر خراسانی نے 20 دن کی تاریخ دی۔ اس دوران رپورٹ آگئی۔ گڈخان نے جو کہاتھا درست ثابت ہوا۔ اس رپورٹ میںانکے خاندان، کاروبار سمیت الیکشن لڑنے کی تفصیل بھی تھی۔گڈ خان کے کردار کی تصدیق ہو گئی تھی۔ امیر نے کہا ’’تمہارا اور ہمارا دشمن ایک ہے۔ ہم تمہیں رہا کرتے ہیں‘‘۔ چند دن بعد انکوکشتی کے ذریعے دوسرے کنارے پہنچا دیا گیا۔ گڈخان کہتے ہیں ’’مجھے دریاتک طالبان الوداع کہنے آئے توان میں سے دو رو رہے تھے۔ طالبان نے الوداع کہتے ہوئے کہا کہ انکے ساتھ جوکچھ ہوا وہ ضرور بیان کریں مگر ایسی بات نہ کریں جو ہوئی نہیں، دوسرا یہ کہ اپنے اغواء کرنیوالوں کو کسی صورت نہ چھوڑنا‘‘۔
قارئین! گُڈ خان موت کے منہ سے بچ کر آئے۔حرام کی کمائی عیسیٰ خان کسی کے کام نہ آئی۔ گُڈ خان کی اغوا سے پہلے بھی شہرت شریف اور اچھے انسان کی تھی۔ بازیابی کے بعد مزید اپ رائٹ ہو گئے۔ انہوں نے ضرورت کے تحت پراڈو بیچ دی۔ سکیورٹی کیلئے حکومت نے چار پولیس اہلکار دیئے ہیں۔ آجکل گُڈ خان پولیس کے ڈالے میں سفر کرتے ہیں۔ علاقے میں ترقیاتی کاموں کی خود نگرانی کرتے ہیں۔ ایک ارب روپے سے زائد کے منصوبے مکمل کرائے۔ دنیاوی بہی خواہ زور دیتے ہیں ایک ارب سے ساٹھ ستر کروڑ نہیں بنانے تھے تو جائز دس فیصد کمیشن ہی رکھ لیتے۔ خدا ایسے خیر خواہوں سے بچائے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی موت کو قریب سے دیکھا۔ شاید عبرت پکڑنا بھی توفیق خداوندی ہے۔ اگر انہوں نے قیدو تنہائی، صعوبتوں اور جلا وطنی سے سیکھا ہوتا تو یقین کریں، کرپشن اور بدعنوانی کا پاکستان میںنام تک نہ ہوتا۔ آزمائش سے بچنے کا اببھی وقت ہے۔