• news
  • image

ترے آنے کا رہتا ہے گماں سا

اتوار کے دن شائع ہونے والے میرے کالم کی نوعیت اکثر ادبی ہوتی ہے ورنہ غیرسیاسی تو ہوتی ہے۔ اتوار کے دن اخبار پڑھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ کچھ لوگوں کے گھر صرف اتوار کو اخبار جاتا ہے۔ ہمارے میڈیا پر سیاست چھا گئی ہے۔ اخبارات میں کبھی کبھی ادبی ایڈیشن ہوتے ہیں۔ ادبی ایڈیشن کی ابتدا بھی نوائے وقت نے کی تھی۔ اسے بہت عروج اور پسندیدگی ملی۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ کوئی شاعر ادیب کالم لکھتا ہے تو اس کا اسلوب ہی مختلف ہوتا ہے۔ 

ویک اینڈ ہفتے والا دن بہت خوشگوار اور مزیدار ہوتا ہے۔ ہفتے کی شامیں اور راتیں بہت رونق والی ہوتی ہیں۔ اکثر تقریبات بھی اسی دن ہوتی ہیں اور تقریبات اکثر ادبی ہوتی ہیں۔ غیرسیاسی بھی ہوتی ہیں۔ سیاسی طور پر جلسے ہوتے ہیں۔ معروف شاعرہ اور ادبی خاتون ناز بٹ نے اپنی پہلی تقریب برمنگھم سے آئے ہوئے بہت خوبصورت شاعر موسیقار اور ادب و ثقافت کے ساتھ وابستہ نعیم حیدر کے ساتھ منعقد کی۔ یہ ایک مختصر مگر مکمل تقریب تھی۔ کل 30 خواتین و حضرات سے محفل بھری بھری تھی۔ ناز بٹ نے بڑی خوبصورتی سے محفل کو سجایا تھا۔ ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔ جن کے ہاتھوں میں پھول نہیں تھے۔ ان کے دلوں میں پھول تھے۔ ناز بٹ بینا گوئندی اور صغرا صدف نے نعیم حیدر کو پھول پیش کیے۔ اس نے اپنے دلگداز ترنم سے محفل میں خوشبو بکھیر دی۔ اس نے تحت اللفظ پڑھ کر بھی ایک بہت سریلا توازن سننے والوں کو دیا۔
نعیم حیدر کے بارے میں ناز بٹ کے تعارفی جملے بہت جامع تھے۔ اس نے بڑے اعتماد سے کمپیئرنگ کی جسے اردو میں میزبانی کہتے ہیں۔ ہر طرح کی میزبانی اس نے اپنے پاس رکھی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں شعیب بن عزیز خالد شریف قمر رضا شہزاد اور سعود عثمانی شامل تھے۔ اچھی باتیں نعیم حیدر کے لیے ہوئیں۔ محفل کے صدر امجد اسلام امجد نے بھی گفتگو کی۔ خلاف معمول سب سے پہلے صدر امجد نے بات کی۔
اس کے بعد ناز بٹ اور نعیم حیدر کا خیال تھا کہ محفل میں موجود شعرا اور شاعرات سے بھی تھوڑا بہت کلام سنا جائے۔ جبکہ محفل میں دو ایک کو چھوڑ کر بہت لوگ شعر کہنے والے بلکہ شعر سنانے والے تھے۔
ڈاکٹر غافر شہزاد نے تجویز دی کہ صرف نعیم حیدر کو تفصیل سے سنا جائے۔ یہ اچھی تجویز تھی مگر امجد اسلام امجد کو منظور نہ تھی کہ وہ کہیں بھی ہو اپنی نظم سنائے بغیر اسے چین نہیں آتا۔ وہ کئی برسوں سے بیرون ملک اور اندرون ملک ایک طرح کی نظمیں سنائے چلے جا رہا ہے۔ اس نے سب سے پہلے بول لیا کہ پھر صدر کے بعد کوئی نہ بول سکے اور مشاعرہ برپا کیا جائے۔ مگر شعیب بن عزیز، قمر رضا شہزاد اور خالد شریف کی اچھی گفتگو سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اصل صدر وہ تینوں ہیں۔
نعیم حیدر سے میں نے کہا کہ آپ برمنگھم میں رہتے ہو تو ریحام خان سے ملو۔ اس نے کہا کہ میں اب اس سے ملوں گا اور کہوں گا کہ مجھے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے مشورہ دیا ہے کہ میں آپ سے ملوں۔ عمران خان بھی نیازی ہیں۔ نعیم حیدر بھی پٹھان ہیں۔
پھر شعر و شاعری کا دور چلا۔ ڈاکٹر غافر شہزاد نے آغاز کیا اور پھر چل سو چل؟ حمیدہ شاہین رخسانہ نور نیلم احمد بشیر بینا گوئندی سعداللہ شاہ، شہناز مزمل، شاہدہ دلاور شاہ، سعود عثمانی، خالد شریف، صغرا صدف، وسیم عباس حفیظ اعجاز، امجد کلیار، احمد سہیل اور دوسرے شعراء نے اپنا کلام سنایا۔ شعیب بن عزیز دیر سے آئے۔ ان کے اشعار منتخب اشعار ہوتے ہیں۔ وہ کم کم لکھتا ہے مگر اس کا ہر شعر دل کی توجہ کھینچتا ہے۔ ریاض ندیم نیازی میرے قبیلے کا آدمی ہے۔ بلوچستان میں رہتا ہے۔ وہاں ایک چھوٹی سی میانوالی بسائی ہوئی ہے مگر لاہور میں بھی آ جاتا ہے۔ اس نے نعت بھی بہت اچھی لکھی ہے۔ قمر رضا شہزاد بھی میرا پسندیدہ شاعر ہے۔
اے دوست یہ تہذیب مجھے عشق نے دی ہے
میں دشت میں بھی خاک اڑا کر نہیں آیا
یہ شاندار محفل ذاتی طور پر ناز بٹ نے سجائی تھی مگر شعیب بن عزیز نے ایک ادبی تنظیم کا اعلان کیا ’’لاہور رائٹرز کلب‘‘۔ اس میں ناز بٹ بھی شامل ہے قمر رضا شہزاد، وسیم عباس، رخسانہ نور بھی ہیں۔ آئندہ اس کے زیر اہتمام ادبی نشستیں ہونگی۔ رخسانہ نور بڑی مدت کے بعد کسی محفل میں آئی تھیں۔ اس نے بڑی استقامت سے بیماری کا مقابلہ کیا ہے۔ اسے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ میں نے ناز بٹ کے لئے ممنونیت کا اظہار کیا کہ اس نے ایک اچھی محفل کے ذریعے ایک اچھے دل و دماغ والے جامع حیثیات انسان کئی فنون میں نام پیدا کرنے والے بیرون ملک مقیم نعیم حیدر سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ میں زندگی میں پہلی بار اس اعلیٰ مزاج کے آدمی سے ملا۔ اس طرح دوستوں کو بھی مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد کھانا بھی ہوا۔ جس کے انتظار میں بڑی گپ شپ ہوئی امجد اسلام نے لطیفے سنائے جو ہم کئی بار سن چکے ہیں۔
نعیم حیدر کمپیوزر بھی ہیں۔ ان کے 14 البم آ چکے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی تین البم لانچ ہوئے ہیں۔ نعیم حیدر کے ساتھ پہلی ملاقات میں کئی ملاقاتوں کا گماں گزرتا رہا۔
ترے آنے کا رہتا ہے گماں سا
مسلسل آہٹوں کے درمیاں ہوں
ہزار ان کہی باتیں کہیں تری آنکھیں
خموش رہ کے بھی مجھ سے ترا کلام تو ہے
پھرتے ہیں اور لوگ بھی حیدر ڈسے ہوئے
اس کوئے ناشناس میں تنہا نہیں ہے تو

epaper

ای پیپر-دی نیشن