’’صدر‘‘ زرداری ’’بری‘‘ ہوئے ہیں بری الذمہ نہیں؟
میرے دوست اور شاگرد پرویز رشید کہتے ہیں کہ ’’صدر‘‘ زرداری کی بریت بدقسمتی ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اصل فائلیں گم ہونے کی وجہ سے ان کے لیے کرپشن کا مقدمہ خارج کیا گیا۔ انہیں بے قصور قرار نہیں دیا گیا۔ پھر پرویز رشید نے کہا ہے کہ اصل فائلیں ’’صدر‘‘ مشرف اور نیب کے محکمے والوں نے گم کی ہیں۔ ان کی خدمت میں پھر عرض ہے کہ کرپشن کے یہ مقدمات نواز شریف کے دور میں بنائے گئے تھے اور یہ مقدمات خارج بھی نواز شریف کے دور میں ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے پرویز رشید کی بات ٹھیک ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری کو بری کر دیا گیا ہے اور یہ بدقسمتی ہے تو خوش قسمتی کیا ہے؟ ’’صدر‘‘ زرداری ’’بری‘‘ ہوئے ہیں بری الذمہ نہیں ہوئے۔
مشرف کو کیا ضرورت تھی اصل فائلیں گم کرنے کی؟ ان کی طرف سے زرداری صاحب کے لیے این آر او کافی تھا۔ ان کے خلاف سارے مقدمات ختم ہو گئے اور ان کے ساتھ کئی اور سیاستدانوں اور افسروں کے مقدمات بھی گم ہو گئے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے خلاف مقدمات ان کے دور میں بحال ہوئے کہ انہیں پوری طرح ختم کیا جا سکے۔ عدالتی قتل اور عدالتی بریت؟ اسی طرح کبھی اصل فائلیں مل جائیں گی اور وہ پھر نواز شریف کے ہی کسی دور حکومت میں مل جائیں گے۔ اب تو سیاست بلکہ جمہوریت بچانے کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔ اصل میں یہ ایک دوسرے کی حکومت بچانے کے معاہدے اور مفاہمت ہے؟
یہ خیال کیوں نہیں پرویز رشید کو آتا کہ زرداری نے خود اپنے دور حکومت میں یہ ’’نیک کام‘‘ کیا ہو گا۔ ان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے یہ خدمت انجام دی تھی۔ انہوں نے این آر او کے ذریعے پاکستان کی صدارت حاصل کر لی تھی۔ ’’صدر‘‘ مشرف نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری۔ وہ اب تک مسلسل کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ نواز شریف کے کلہاڑے کو زنگ لگ گیا ہے۔ زرداری صاحب کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ وہ ہر کھیل میں پکا ہاتھ ڈالتے ہیں۔ سیاست بھی ان کے لیے ایک کھیل ہے۔ سیاست ایک کھیل تو نواز شریف کے لیے بھی ہے۔ مگر وہ کرکٹ کو پسند کرتے ہیں اور مقابلہ عمران خان سے آ پڑا ہے۔
آج تک سیاسی حوالے سے سیاستدانوں پر کھلم کھلی کرپشن کے کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کسی سیاستدان کو سزا نہیں ملی۔ وہ مقدمے بھی بھگتاتے ہیں۔ اور اپنی باری بھی لیتے ہیں۔ حکمران بنتے ہیں کہ اس کے بغیر کرپشن نہیں ہو سکتی۔ ایک ایڈمرل منصورالحق ہے پاک بحریہ کا سابق سربراہ جس کے ساتھ پلی بارگیننگ کر کے کچھ روپے نکلوا لیے تھے وہ سیاستدان نہ تھا۔ سیاستدان ہوتا تو سیاسی انتقام کا شور مچا کے بچ جاتا۔ وہ فوج کا آدمی تھا اور سیاستدانوں کا بس چلتا ہے تو کسی بھی فوجی کو گندا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیب نے تھوڑے سے پیسے لے کے منصور صاحب کو چھوڑ دیا۔ مشرف بھی تو جرنیل ہیں مگر اس کے لیے کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ ’’جنرل‘‘ مشرف نے جو غلطیاں کیں وہ سیاستدان کے طور پر کیں۔ جب کوئی جرنیل صدر پاکستان بنتا ہے تو سیاستدان بن جاتا ہے۔ میں اکثر بہت مقبول اور محبوب جنرل راحیل شریف سے کہتا رہتا ہوں ’’براہ راست سیاست میں نہ آئو مگر سیاست کو تو راہ راست پر لائو۔‘‘
نجانے ملک ریاض کے بحریہ ٹائون کا کیا تعلق پاک بحریہ سے ہے۔ وہ کروڑوں روپے کا بلاول ہائوس ’’صدر‘‘ زرداری کیلئے بنانے کے بعد کراچی چلے گئے ہیں کہ ’’صدر‘‘ زرداری کراچی چلے گئے ہیں۔ بلاول کو تو پنجاب آنے ہی نہیں دیا جاتا، ملک ریاض بھی اب پنجاب (لاہور) آتے ہی نہیں۔ نجانے بلاول ہائوس لاہور میں اب کون رہے گا؟
میں ایک دفعہ ’’صدر‘‘ زرداری کی دعوت پر دوسرے صحافی ساتھیوں کے ساتھ بلاول ہائوس لاہور میں گیا تھا۔ یہ ایک قلعہ نما عمارت ہے۔ ایوان صدر اسلام آباد سے زیادہ محفوظ اور مضبوط ہے۔ کراچی میں بلاول ہائوس ہے مگر سنا ہے کہ اصلی بلاول ہائوس وہاں ملک ریاض بنائیں گے۔ پھر بھی ’’صدر‘‘ زرداری اب پاکستان نہیں آئیں گے مگر بلاول ہائوس کراچی میں بھی بلاول کو نہیں رہنے دیا جائے گا۔ بختاور کیلئے سنا ہے کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ اس کے بعد آصفہ رہ جاتی ہیں۔ اپنی اس بیٹی کو آصف زرداری بہت پسند کرتے ہیں مگر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ایڈووکیٹ اظہر شاہ مقبول کہتے ہیں کہ بختاور بے نظیر بھٹو کی نمائندگی کریں گی۔ اظہر شاہ میرے دوست ہیں۔ اصل دوست وہ برادرم شاہد رشید کے ہیں۔ ان کی رائے قابل غور ہے۔
سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ نیب ’’صدر‘‘ زرداری کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا تو وہ ان سے معافی مانگے۔ نیب اصلی فائلیں خود بقول پرویز رشید گم کر چکا ہے تو وہ کیا معافی مانگے گا اور کس کس سے معافی مانگے گا؟ نیب نے ’’صدر‘‘ زرداری کو بری نہیں کیا، نیب کسی وقت بھی دوبارہ کیس کو بحال کر سکتا ہے۔
انتخابی مہم میں نواز شریف نے ’’صدر‘‘ زرداری کو لٹیرا کہا تھا، راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں کہ کرپشن کے مقدمے تو نواز شریف کے خلاف بھی بنے ہیں۔ یہ مقدمات تو ایک نعمت ہیں کہ اس کے بعد سیاستدان صدر یا وزیراعظم بن جاتا ہے۔ راجہ صاحب کو فخر ہے کہ انہیں راجہ رینٹل کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جس پر کرپشن کا مقدمہ بنتا ہے وہ ’’لیڈر‘‘ بن جاتا ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کیلئے ایک محکمہ بنایا گیا تھا… انٹی کرپشن جسے آنٹی کرپشن کہا جانے لگا۔