• news

داعش کیخلاف لڑائی جرمن کابینہ نے 1200 فوجی جنگی سامان شام بھیجنے کی منظوری دیدی

برلن (بی بی سی) جرمنی کی کابینہ نے شام میں داعش کے خلاف جنگ میں فوجی مدد فراہم کرنے کے منصوبے کی منظوری دیدی ہے۔خطے میں جاسوسی کرنے والا ٹورناڈو ہوائی جہاز، ایک بحری جنگی جہاز اور 1200 فوجیوں کو بھیجنے کی تجویز پر آج پارلیمان میں رائے شماری ہوگی۔جرمنی نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ پیرس میں 12 نومبر کو ہونے والے حملوں کے بعد فرانسیسی صدر فرانسو اولاند کی درخواست پر کیا ہے۔خیال رہے کہ جرمنی کی افواج جنگی کارروائیوں میں شریک نہیں ہوں گی۔امید کی جارہی ہے کہ جرمنی کے ارکان پارلیمان اس مشن کی حمایت کریں گے، جس سے یہ بیرون ملک جرمنی کا سب سے بڑا فوجی آپریشن بن جائے گا۔دوسری جانب بدھ کو برطانوی پارلیمان میں بھی شام میں ’دولت اسلامیہ‘ کے خلاف جنگ میں شمولیت کے حوالے سے بحث اور ووٹنگ ہوگی۔وزیرخارجہ فرینک والٹر سٹینمیئر نے کابینہ کے اجلاس سے قبل ’بلد‘ اخبار کو بتایا تھا کہ ‘ہم جو کر رہے ہیں وہ فوجی لحاظ سے ضروری ہے، جو اہم بہترین انداز میں کر سکتے ہیں، اور جس کی ہم سیاسی طور پر حمایت کر سکتے ہیں۔ دولت اسلامیہ جیسے مخالف کے لیے ہمیں بھرپور صلاحیت کی ضرورت ہے۔‘جرمنی کا ٹوناڈو ہوائی جہاز مشن کے دوران خفیہ طور پر معلومات اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔دوسری جانب جرمنی کی فوجی سروسز کی ایسوسی ایشن نے واضح مقاصد کے تعین کے بغیر جنگ میں شامل ہونے کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔ایسوسی ایشن کے چیئرمین آندرے ووئسٹنر نے جرمنی ٹی وی کو بتایا: ’اگر اس لڑائی کو سنجیدہ انداز میں لیا جائے تو یہ دس سال سے زیادہ عرصہ جاری رہ سکتی ہے۔‘گرین پارٹی کی چیئروومن سائمون پیٹر اس مشن کے اقوام متحدہ کی قرارداد کے بغیر اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔وہ کہتی ہیں: ’اس تعیناتی کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے، کوئی سیاسی منصوبہ نہیں اور اسی وجہ سے یہ غیرذمہ داری ہے۔‘منگل کو شائع ہونے والی ایک عوامی رائے شماری میں 45 فی صد جرمن شہریوں نے جرمنی کی فوجی شمولیت کی حمایت اور 39 فیصد نے مخالفت کی ہے جبکہ حکام کے مطابق شام میں القاعدہ سے منسلک شدت پسند تنظیم ’’النصرہ فرنٹ‘‘ نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت لبنان کے 16 سکیورٹی اہلکاروں کو رہا کر دیا ہے۔ تقریباً 6 ماہ پہلے اغوا کیا گیا تھا۔ سرحدی قصبے عرسال کے قریب حکام کے حوالے کیا گیا جبکہ ترکی کے وزیراعظم داؤد اوگلو نے کہا ہے شام کے سرحدی علاقے سے داعش کے صفایا کیلئے کوششیں جاری رہیں گی۔ حمص شہر سے انخلا کیلئے حکومت اور اپوزیشن فورسز میں معاہدہ ہو گیا۔ باغی یہ علاقہ چھوڑ دیں گے۔ 2 ماہ میں عملدرآمد ہو گا۔ سعودی عرب نے شام کی 65 اپوزیشن شخصیات کو ریاض کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیدی۔ جرمن کابینہ نے داعش کے خلاف لڑنے کیلئے بارہ سو فوجی اور جنگی سازو سامان شام بھیجنے کی منظوری دیدی۔ جرمن دستہ شام میں فرانسیسی فوجیوں کو مدد فراہم کرے گا تاہم اسد حکومت کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا جائیگا۔ جرمنی کی طرف سے شام کی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ پیرس حملوں کے بعد فرانسیسی حکومت کی اپیل پر کیا گیا تاہم پارلیمان سے اس کی منظوری ابھی باقی ہے۔ دوسری جانب جرمن وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ عراق میں کی گئی غلطی کو دوبارہ نہیں دہرایا جانا چاہئے اس لئے شامی ریاست کو تباہ ہونے سے بچانا ہو گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ نئی ممکنہ حکومت میں اسد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن