• news

کوئی دہشت گرد جعلی بھرتی ہو کر کارروائی کر دیتا تو کسی پولیس افسر نے ذمہ دار نہیں بننا تھا: سپریم کورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے پنجاب پولیس میں جعلی اہلکاروں کی بھرتیوں اور تبادلوں سے متعلق کیس نمٹاتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ محکمے میں جعلی اہلکار وں کابھرتی ہو جانا بڑی نالائقی ہے ،اگر کوئی دہشت گرد جعلی طریقے سے بھرتی ہو کر دہشت گردی کی کارروائی کر دیتا تو کسی اعلیٰ افسر نے ذمہ دار نہیں ہونا تھا ، پولیس نے اپنے طور پر کچھ نہیں کرنا ہوتا ، اگر عدالت اس معاملے کا نوٹس نہ لیتی تو پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اعجاز احمد چوہدری پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پنجاب پولیس میں جعلی اہلکاروں کی بھرتیوں اور تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ آر پی او ملتان طارق مسعود یاسین دیگر سینئر پولیس افسروں کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے اور معاملے پر پیشرفت رپورٹ جمع کروائی ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جعلی بھرتیوں سے متعلق انکوائری مکمل ہو چکی ہے اور اب تک 149اہلکاروں کی نشاندہی ہوئی ہے جو کہ جعلی طریقے سے پنجاب پولیس میں بھرتی ہوئی تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس معاملے میں کسی اعلیٰ پولیس افسر کی دانستہ غفلت سامنے نہیںآئی ، یہ جعلی اہلکار ایک منظم گروہ تھا جو پولیس افسروں کو چکمہ دے کر محکمے میں بھرتی ہوا اور اپنے تبادلے بھی کرواتا رہا ۔ جس پر فاضل جسٹس اعجاز احمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نالائقی کی انتہا ہے کہ محکمے میں جعلی اہلکار بھرتی ہو گئے ۔ اگر عدالت معاملے کا نوٹس نہ لیتی تو پولیس حرکت میں نہ آتی اور جعلی اہلکار بھی نہ پکڑے جاتے ۔ فاضل جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی دہشت گردجعلی طریقے سے بھرتی ہو کر دہشت گردی کی کوئی کارروائی کر دیتا تو پولیس کا کوئی اعلیٰ افسر ذمہ دار نہیں ہونا تھا ۔جعلی اہلکار محکمے میں کام کرتے رہتے تو پولیس کے لئے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا تھا ۔ فاضل عدالت نے جعلی بھرتیوں اور تبادلوں کا معاملہ نمٹاتے ہوئے آئی جی پنجاب اور آر پی او کو حکم دیا کہ معاملے میں ملوث 149ملزموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے ۔ جبکہ عدالت نے کہا کہ جن اہلکاروں نے عدالت سے اپنی برطرفیاں معطل کروا رکھی تھیں اور جنہیں پنجاب پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا ان تمام مقدمات کی سماعت الگ سے کی جائے گی اور عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ہدایت کی کہ تمام مقدمات کی فہرست بنا کر سماعت کے لئے پیش کی جائے۔

ای پیپر-دی نیشن