• news
  • image

لاہور قطب البلاد ہے کہ داتا کی نگری ہے

داتا گنج بخش کے عرس پر شہر لاہور کے تمام راستے داتا دربار کی طرف جاتے ہیں۔ مجھے تو ہر جمعرات کی شام داتا صاحب کے عرس کی طرح لگتی ہے۔ ہر دم شاد آباد۔ ان عظیم ہستیوں کی محفل آباد۔ ان کا مرقد اس سے بھی زیادہ آباد۔ ان کا قلب بھی زندہ ان کی قبر اس سے بھی زیادہ زندہ بلکہ زندہ باد۔ عجب بات ہے کہ گوالے داتا صاحب کے عرس پر جو دودھ بھیجتے ہیں، بیچتے نہیں ہیں، بالکل خالص ہوتا ہے۔ پانی کا ایک قطرہ بھی اس میں شامل نہیں ہوتا۔ ورنہ شہر میں خالص دودھ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عجب بات ہے کہ داتا صاحب سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ اس کا اثر عام زندگی میں بھی ہونا چاہئے۔ کون ہے جو داتا صاحب سے عقیدت نہیں رکھتا تو لوگوں کو خالص دودھ ملے اور خالص زندگی گزارنے کی نعمت ملے۔ کبھی تو عقیدت کو عقیدہ بنایا جائے۔ لاہور شہر داتا کی نگری بن گیا ہے، اس اعزاز کو سمجھنا چاہئے۔ 

عشق رسولؐ کے بعد لاہوریئے داتا صاحب سے محبت رکھتے ہیں۔ داتا دربار میں بھی دربار نبویؐ کی کیفیتوں کو زندہ تر کرتے ہیں۔ پچھلے سینکڑوں برسوں سے جتنا درود شریف یہاں پڑھا گیا ہے، کہیں بھی شاید پڑھا گیا ہوا؟ محکمہ اوقاف کی طرف سے ہجویری یونیورسٹی بھی بنائی گئی ہے۔ محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر جنرل طاہر رضا بخاری اور صوبائی خطیب عارف سیالوی داتا دربار پر مختلف روحانی محفلیں سجاتے رہتے ہیں۔ داتا صاحب کے عرس پر بھی خصوصی محفلیں منعقد کی جارہی ہیں۔ محترم بخاری صاحب نے داتا صاحب کے عرس کا لنگر مجھے گھر میں بھجوایا ہے، اس خصوصی مہربانی کے لئے ان کا بہت شکریہ۔ اس کے ساتھ ایک شاندار کتاب الہجویر بھی ہے جس کے مرتب و مدیر خود بخاری صاحب ہیں۔ لنگر اور کتاب بڑا تبرک ہے۔
میرے دوست داتا صاحب کے دیرینہ عقیدت مند روحانی شخصیت ممتاز ایڈووکیٹ منصور الرحمن آفریدی 30 سال سے زیادہ عرصے سے باقاعدگی سے ہر بدھ کی رات داتا صاحب حاضری دیتے ہیں، چراغ جلاتے ہیں اور دل کے چراغ کو بڑھاتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں ATI کے زیر اہتمام دودھ اور لنگر تقسیم کرتے تھے۔ لنگر میں میٹھے پراٹھے خاص طور پر شامل کئے جاتے تھے۔ حزب الاحناف کی طرف سے عرس کے موقع پر 5 دن تک لنگر چلتا تھا۔ اب بھی چلتا ہے۔ آفریدی صاحب نے ATI کے نوجوانوں کی تربیت کی اور قیادت بھی کی۔ تہجد کے وقت دعا ہوتی ہے اور اس کے بعد جمعرات کا دن شروع ہوجاتا ہے۔ عرس کے موقع پر خاص طور پر اور ہر جمعرات کو عام طور پر ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔
پہلے بھی اولیائے کرام کے ڈیروں اور مزاروں پر لوگوں کے لئے قیام و طعام کا اہتمام ہوتا ہے۔ لوگ یہاں اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔ دلوں اور روحوں کی بھوک بھی مٹائی جاتی ہے۔ داتا دربار جیسی رونق کم کم کہیں ہوگی۔ برصغیر پاک وہند میں اس جگہ کو ایک مقام حاصل ہے جس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ داتا صاحب علی ہجویری قیام پاکستان سے بہت پہلے لاہور میں تشریف لائے تھے۔ اپنی روحانی بلندیوں کی ایسی روشنی پھیلائی تھی کہ دنیا اور آخرت کی تمنائیں یہاں جمع ہوگئی ہیں۔ لوگوں کی ساری حاجات یہاں پوری ہوتی ہیں۔ جتنے غریب، نادار اور حاجت مند لوگ یہاں سے فیض یاب ہوتے ہیں، انہیں لنگر بھی ملتا ہے اور روحانی غذا کی بھی فراوانی بھی یہاں ہے۔ داتا دربار ایک لج پال روحانی اور فلاحی ڈیرہ ہے۔ اصل دربار تو داتا دربار ہے جہاں امیر غریب کا فرق نہیں۔ سارے کے سارے فقیر ہیں۔ کوئی عام خاص کی تمیز نہیں ہے۔ سرکار دربار تو پروٹوکول اور سکیورٹی کا قید خانہ ہے۔
دن رات کے 24 گھنٹوں میں ایک لمحہ نہ ہوگا کہ یہاں لوگوں کا ایک ہجوم موجود نہ ہو۔ خواتین کی بھی بڑی تعداد اس میں شامل ہوتی ہے۔ عرس کے موقع پر حافظ نعمان صاحب تہجد کے وقت دعا کراتے ہیں۔ روحانی دانشور واصف علی واصف کی پہلی برسی پر بھی دعا حافظ نعمان نے کرائی تھی۔ چیف جسٹس محبوب مہمان خصوصی تھے۔ اس برسی کا اہتمام آفریدی صاحب نے کیا تھا۔ واصف صاحب سے میری بھی بہت عقیدت اور دوستی تھی۔ انہوں نے مجھے ایک دن راز دارانہ طریقے سے ہدایت کی کہ تم داتا دربار باقاعدگی سے جایا کرو۔ یہاں آنے والے کے لئے کوئی تخصیص نہیں ہے۔ پرہیز گار اور گنہگار کے لئے کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر کوئی یہاں داتا صاحب کے لئے اپنے دل میں محبت، عقیدت اور کسی نہ کسی حاجت کا چراغ جلا کر حاضر ہوتا ہے۔ کسی کا چراغ بجھتا نہیں ہے۔ ڈھول بجاتے ہوئے دھمال ڈالتے ہوئے ناچتے ہوئے دور دراز سے اور قرب و جوار سے سر جھکائے ہوئے چہرہ چھپائے ہوئے آنسو بہاتے ہوئے دل ہی دل میں روتے ہوئے آتے ہیں اور سب کے ساتھ مل جل کر دعا کرتے ہیں۔ منتیں مانتے ہیں، امید اور آرزو سے بھرے ہوئے واپس گھروں کو جاتے ہیں۔ اپنا دل یہیں داتا دربار میں چھوڑ جاتے ہیں۔
منصور الرحمن آفریدی نے بتایا کہ میں نے تیس چالیس برسوں میں رنگ رنگ کے لوگوں کو دیکھا کہ عجب روحانی رنگارنگی میری آنکھوں میں بھر گئی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کے والد جسٹس محمد نثار برسہا برس سے آتے رہے۔ پوری طرح اپنے آپ کو چھپا کے رکھتے کہ انہیں صرف داتا صاحب ہی دیکھ سکیں مگر وہ مجھ سے نہ چھپ سکتے تھے۔ اعجاز فقیہ اور خالد قادری معروف ایڈووکیٹ تھے مگر یہاں ایک گمنام شخص کی طرح ہوتے تھے۔ یہاں پیر کاکی تاڑ کو بھی اکثر دیکھا گیا۔ بہت کم لوگ اس شخص کی اصل حقیقت سے واقف ہیں مگر داتا صاحب تو جانتے ہونگے۔ پیر کاکی تاڑ داتا صاحب کے پاس حاضری کے بعد بادشاہی مسجد کے علاقے کی طرف چل دیتے تھے۔
اس سال ان دنوں سید الشہداء حضرت امام حسینؑ کا چہلم بھی ہے۔ امام بارگاہ داتا دربار کے پڑوس میں ہے۔ میرے ضلع میانوالی میں بھی امام کا چہلم بڑے درد و ذوق کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ انہی تاریخوں میں میرے عزیز سمیع اللہ خان کی برسی پر موسیٰ خیل میانوالی خاص طور پر محفل میلاد کی جاتی ہے۔ یہ ایک گھریلو تقریب ہوتی ہے۔ اس کی روایت ہمارے قصبے میں پہلے موجود نہ تھی۔ یہ ایک روحانی معرکہ آرائی ہے۔ مجھے عزیزم کلیم اللہ خان نے فون کیا کہ امام حسینؓ کے چہلم کی وجہ سے اجتماعات کی اجازت نہیں۔ میں نے زبردست اور ان تھک کام کرنے والے ڈی پی او سرفراز ورک کو فون پر عرض کیا، فوری طور پر انہوں نے اجازت دے دی۔ میں ان کا شکرگزار ہوں۔ میانوالی کے لوگ ڈی پی او میانوالی سرفراز ورک کے لئے دعا کرتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔ میرا ایک بہت پیارا دوست بلال ہے۔ انہوں نے مجھے فون کرکے بتایا سرفراز ورک نے میانوالی میں امن و سلامتی کی کئی روشنیاں پھیلا دی ہیں۔ لوگ سکھ کی نیند سوتے ہیں۔ سرفراز ورک اچھے لوگوں کے دوست ہیں اور ظالموں کے لئے ننگی تلوار ہیں۔ اتنا بہادر، دیانت دار، اہل اور دردمند پولیس افسر یہاں نہیں آیا ہوگا۔ میانوالی کے ڈی سی او طلعت محمود گوندل بھی ایک دوست شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے لئے بھی اچھی خبریں آتی رہتی ہیں۔ میں اپنا ایک جملہ انہیں سنائوں کہ کسی ضلع کا ڈی سی او اور ڈی پی او چاہے تو اپنے علاقے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
موسیٰ خیل اور میانوالی سے سینکڑوں لوگ داتا دربار حاضر ہوتے ہیں۔ ان کی تقدیر کب بدلے گی؟ تقدیر بدلنے کے آثار تو ہیں۔ ہر بستی کا ایک ولی ہوتا ہے، کسی ولی کا مزار بھی وہاں ہوتا ہے، وہ اپنے علاقے کا ’’داتا صاحب‘‘ ہوتا ہے۔ داتا گنج بخش سید علی ہجویری کئی شہروں کے ولی ہیں۔ وہ ولیوں کے ولی ہیں۔ ایک دل والے انسان ڈاکٹر اظہر وحید نے اپنے کالم میں داتا صاحب کے لئے واصف علی واصف کی منقبت کے کچھ اشعار لکھے ہیں:
السلام اے سید ہجویر قطب الاولیا
السلام اے مرکز توحید انوار اِلہہ
خطۂ لاہور میں سربستہ راز بے بہا
سرزمین شوق و مستی میں بہاروں کی فضا

epaper

ای پیپر-دی نیشن