پاکستانیوں کے نام کھلا خط
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ تو ہم سب کو بخوبی معلوم ہے کہ قیام پاکستان ہماری آرزوؤں اور خوابوں کی ایک تعبیر تھی جس میں تابناک مستقبل کی بھی نوید تھی لیکن ایسا ہو نہ سکا کیونکہ جیسے ہی ہمارے قائد محمد علی جناحؒ نے آنکھیں موند لی سارے کے سارے سپنے ٹوٹ گئے اگرچہ آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی حدت ہے لیکن یہ حدت حاصل غم بھی ہے اور امید کی کرن بھی۔
دیمک لگے کواڑ بھی اتنے کم مایاں نہ ہوں گے جتنی ایک پاکستانی کی زندگی بنا دی گئی ہے۔ اشرافیہ کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دریا کے کنارے بیٹھا ہو‘ ایسے شخص کو ان لوگوں کے متعلق کیا معلوم۔ جنہیں پیاس بجھانے کیلئے ہر پہر ایک کنواں کھودنا پڑے اور ان کی زندگی کتنی بے معنی ہے۔ ایک عام آدمی آج وہ ایک گیلا کاغذ بن کر رہ گیا ہے جو نہ جلانے کے کام آتا ہے نہ اس پر کوئی حرف غلط رقم کیا جا سکتا ہے۔
حیات اجتماعی پر نگاہ ڈالئے اور چشم نور سے دیکھئے آج ایک مزدور کی‘ ایک کسان کی‘ ایک ڈرائیور کی‘ ایک چپڑاسی کی‘ ایک کلرک کی زندگی میں خوشیوں کی کوئی رمق اس نظام نے باقی نہ چھوڑی ہے۔ ملک کی غالب آبادی سسک سسک کر اور چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کا گلا گھونٹ کر جی رہی ہے۔ ان کیلئے بوڑھی ماں کے علاج کی سہولت نہیں‘ چھوٹے بچے بیمار پڑ جائیں تو ڈھنگ کا علاج دستیاب نہیں‘ تعلیم پر ساہوکاروں کے پہرے ہیں۔ دستور پاکستان‘ تعلیم و صحت ریاست کی ذمہ داری قرار دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ بنیادی شعبے پرائیویٹ ہاتھوں میں جا چکے ہیں۔ تعلیم ایک کاروبار ہے اور صحت بھی۔ کیا ایک فلاحی ریاست ایسی ہوتی ہے؟ اس گھن چکر سے بھی جو کامیاب نکل آئے اسے ایک دوسرے امتحان کا سامنا ہوتا ہے۔ ڈگری تو ہے ملازمت نہیں‘ موقع‘ اول تو ہیں ہی کم اور جو ہیں ان پر رشوت اور سفارش کے منحوس سائے ہیں۔ کوئی نفسیاتی مطالعہ ہو تو معلوم پڑے انتہا پسندی کے فروغ میں یہ عوامل کس شدت سے بروئے کار آرہے ہیں۔
استحصال اپنے کمال پر ہے۔ ایک غریب ہاری اور کسان ساری عمر ہل تو چلا سکتا ہے لیکن زمین کا مالک نہیں بن سکتا۔ اہل اقتدار نے کامیابی سے برسوں پہلے زرعی اصلاحات کو بے روح اور بے معنی کر دیا ہوا ہے۔ اقبالیات کے ماہر سے نہیں ان ہاریوں کے ناتواں وجود سے اقبال کے شعر کی تشریح پوچھئے جب انہوں نے کہا:۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اب ان تمام احباب کو جو صاحب درد ہیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم نے اسی نام کے ساتھ زندگی گزارنا ہے یا اس کو بہتر بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنی ہیں۔ ہم کب تک پھٹی آنکھوں سے مغربی سماج کے قصے سنیں گے۔ عدل اجتماعی اور فلاح انسانیت پر مبنی معاشرہ آخر ہماری قسمت میں کیوں نہیں؟
حقائق دیوار پہ لکھے ہیں‘ بالکل عیاں اور واضح
عدل کی راہ میں قانونی موشگافیاں ہیں‘ احتساب چونکہ مبینہ اشرافیہ کو گوارا نہیں اس لئے اسے مذاق بنا دیا گیا ہے۔ آئین‘ کتاب میں لکھے حروف کی صورت جگمگا تو رہی ہے‘ مگر اہل اقتدار نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا۔ انہیں آئین کی صرف ان شقوں سے رغبت ہے جو انکے اقتدار کے خدوخال سنوارنے میں کام آسکیں۔ ہر دور میں یہی لوگ حکومت میں رہے ہیں‘ کبھی فوجی طالع آزما کا ساتھ دیکر‘ تو کبھی جمہوریت کے سائے میں بیٹھ کر‘ اسکے پیرہن بدلتے ہیں۔ انکی خو نہیں جاتی‘ ان کا نعرہ بدلتا ہے لیکن طریقہ واردات ایک ہے۔ دستور پاکستان کی روح کے مطابق مساوات اجتماعی کی انہوں نے عملاً ہر جگہ نفی کی‘ قائداعظم کے افکار اور دستور پاکستان کے اقلیتوں کو دئیے گئے حقوق کبھی بروئے کار نہیں آنے آئیے‘ وہ ’معاہد‘ ہیں مگر انہیں ’ذمی‘ ہی سمجھا گیا‘ پولیس کو ہمدرد اور خیر خواہ بنانے کی بجائے ایک طاغوت کا روپ دے دیا گیا اور اہل اقتدار نے ہمیشہ اس طاغوت کی سرپرستی کی کیونکہ ان کا اقتدار اسی جبر‘ ظلم اور خوف کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔
سماج کا عالم یہ ہے کہ اسکی کسی نے تہذیب ہی نہیں کی۔ وہ آج بھی ناترا شیدہ ہے۔ سہولیات سے محروم ہے۔ گیس‘ بجلی‘ صاف پانی‘ یہ سب چیزیں ایک خواب بنتی جا رہی ہیں۔ علاج معالجہ کی سہولت نہیں‘ سستا انصاف میسر نہیں‘ سکول ویران ہیں یا اہل ثروت کے جانوروں کا باڑہ بن چکے ہیں۔ قیمتی ریاستی اداروں کو بہتر کرنے کی بجائے پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ سٹیل مل ہو‘ پی آئی اے ہو‘ ریلوے ہو یا واپڈا ہر طرف ایک انحطاط ہے۔ یہ انحطاط نہیں‘ یہ انحطاط مسلسل ہے۔
یہ لمحہ عرفان ذات کا لمحہ ہے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ یہ نظام کب تک؟ یہ محرومیاں‘ یہ ٹوٹتے خواب‘ یہ آرزوؤں کی کٹیا کب تک…؟ میں مایوس نہیں… کیونکہ میں جانتا ہوں مجھے آپ جیسے احباب کی رفاقت میسر ہے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کب تک پارلیمانی جمہوریت کے نام پر اس نام نہاد اشرافیہ کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھیں گے۔ ہم غلام کیوں رہیں؟ سیدنا عمرؓ نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’تمہیں تمہاری ماؤں نے آزاد جنا ہے‘‘ ہمیں یہ آزادی لینا ہے‘ ہم لے کے رہیں گے۔
اب جو بنیادی سوال ہے وہ ایک متبادل جمہوری نظام کی تلاش ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے نام پر ہمارے ساتھ جو ہوا وہ ہم نے دیکھ لیا۔ اب کیوں نہ قائداعظم کی فکر کی روشنی میں ایک ایسے نظام کی طرف محدود رہیں اور دیگر اختیارات عوام الناس کو نچلی سطح پر منتقل کر دئیے جائیں۔
یہی سوالات مجھے آپ احباب کے سامنے رکھنے تھے۔ آپ یقیناً ان امور پر پہلے ہی غور و فکر کرتے ہوں گے۔اس لئے آپ حضرات اپنے تجربے کی روشنی میں اپنے خیالات سے آگاہ فرمائیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین