40ارب کا حکومتی ڈاکہ، نواز مودی خفیہ ملاقات
باوقار جمہوری حکومتیں سال میں ایک بار قومی بجٹ پیش کرتی ہیں۔ حکومت کا سربراہ اگر بجٹ کے اہداف پورے نہ کرسکے تو اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے وقار کے ساتھ مستعفی ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ڈیموکریسی کو ڈاکو کریسی بنادیا گیا ہے۔ حکومت ٹارگٹ کے مطابق ٹیکس جمع نہ کرسکی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ’’منی بجٹ‘‘ پیش کرکے 350اشیاء پر دس فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے جن میں 183کھانے پینے کی اشیاء ہیں اس طرح دن دیہاڑے عوام کی جیبوں پر 40ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ کہنے کو پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے مگر اسے صدارتی نظام کی طرح چلایا جاتا ہے۔ وزیراعظم پارلیمنٹ، عوام بلکہ خدا کو بھی جواب دہ نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ کی بجائے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظوری لے کر 40ارب روپے کے ٹیکس عائد کردئیے گئے۔ کبھی متحدہ ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہوتی تھی آجکل پاکستان پر آئی ایم ایف کی حکومت ہے۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار بڑے چرب زبان ہیں جن کے گزشتہ دور میں غلط اعدادوشمار پیش کرنے پر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو بھاری جرمانہ عائد کرچکے ہیں۔وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ نئے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی آپریشن ضرب عضب اور آئی ڈی پیز کی واپسی پر خرچ کی جائے گی۔ عوام کو توقع تھی کہ عمران خان حکومتی ڈاکے پر شدید احتجاج کریں گے۔ تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کی جانب سے تاحال متوقع ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کی قیادت میں احتجاجی مارچ ضرور کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ‘‘فرض کفایہ‘‘ کے طور پر معتدل بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی بڑے گی اور غریب آدمی متاثر ہوگا۔ یہ عجیب حکومت ہے جو سال میں تین بجٹ پیش کرتی ہے۔قومی اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ حکومتی ریکارڈ کے مطابق 32لاکھ دولت مند افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ حکومت ریاستی طاقت استعمال کرکے امیر افراد سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگادیتی ہے جو بری حکمرانی کی بدترین مثال ہے جسے مہذب دنیا میں جگا ٹیکس یا ڈاکو کریسی کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی دونوں بیڈ گورنینس کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے پاکستان بارکونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ بدانتظامی اور کرپشن نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہر ادارہ اپنا کام کرنے کی بجائے دوسروں پر تنقید کررہا ہے۔ ہم بطور قوم بے یقینی اور بے حسی کا شکار ہیں۔ مسائل کے حل کے لیے کوئی مسیحا نہیں آئے گا ہمیں خود سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا‘‘۔ سپہ سالار کے آئینی اختیارات محدود ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کے خطابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خوف خدا اور وطن کی محبت موجود ہے ان کے پاس آئینی اختیارات ہیں وہ حالات کا ماتم کرنے کی بجائے ’’منی بجٹ‘‘ اور کرپشن کے بارے میں سوئو موٹو نوٹس لے کر حکومت کا قبلہ درست کیوں نہیں کرتے۔ اشفاق احمد مرحوم نے اپنے مرشد پیر فضل حسین شاہ سے اپنے میگزین کے لیے دعا کی استدعا کی تو انہوں نے فرمایا ’’اشفاق لکھنا چھوڑ و بولنا چھوڑو اور عمل شروع کرو‘‘۔ صدی گزر گئی مگر ہم ابھی تک مفکر اسلام علامہ اقبال کا لافانی پیغام نہ سمجھ پائے۔ ہم تقریریں کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے
پاکستان کے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فارپالیسی ریفارمز (آئی پی آر) نے ایک بیان میں حکومتی منی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر نئے ٹیکسوں سے افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ عام آدمی کی زندگی مزید تلخ ہوجائے گی۔ بنک کمپنیاں ریکارڈ منافع کمارہی ہیں۔ حکومت ان پر ٹیکس بڑھانے کی بجائے عوام پر بالواسطہ ٹیکس عائد کررہی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل پر ٹیکس بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کئی گنا زیادہ ہے جس سے پاکستان کا ہر شہری متاثر ہورہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 21ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔مگر یہ نہیں بتاتے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیسے ہوا ہے۔ حکومت نے سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ ٹیکس نیٹ وسیع نہیں ہوا ، زراعت اور صنعت سے کوئی آمدنی نہیں ہوئی البتہ حکومت نے گزشتہ دو سال کے دوران ریکارڈ توڑ قرضے لیے ہیں اور آنے والی نسلوں کی آزادی اور خودمختاری کو شدید اور سنگین خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ’’قرض کی پیتے تھے مے‘‘ کاش وزیر خزانہ کسی وقت یہ بتا سکیں کہ حکومت نے کتنے نئے پرائمری سکول ، نئے ہسپتال بنائے ہیں، کتنے شہروں کو صاف پانی فراہم کیا ہے اور کتنے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں اور حکومت کو عوام پر ٹیکس لگانے کا کیا اخلاقی، آئینی اور جمہوری استحقاق حاصل ہے۔ ہم اس بدقسمت ملک کے شہری ہیں کہ ہمیں پاکستان کے بارے میں خبریں واشنگٹن، نیو یارک، لندن اور دہلی سے ملتی ہیں۔ حکمران عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ حمود الرحمن کمشن کی خفیہ رپورٹ دہلی میں شائع ہوئی اور اب ہندوستان ٹائیمز نے معروف اور معتبر صحافی برکھادت کی کتاب کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نریندر مودی اور میاں نواز شریف نے کھٹمنڈو نیپال میں ایک گھنٹہ خفیہ ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کا اہتمام دونوں لیڈروں کے ’’سہولت کار‘‘ سجن جندل نے کیا تھا جو بھارت کے سٹیل بزنس کے اجارہ دار ہیں۔ یہ وہی شخصیت ہیں جن سے وزیراعظم پاکستان نے نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری کے موقع پر ملاقات کی تھی جس میں وزیراعظم کے صاحبزادے حسن نواز بھی موجود تھے۔ رپورٹ کے مطابق سجن جندل اپنے کاروبار کے لیے افغانستان سے ’’آئرن کور‘‘ درآمد کرنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے پاکستان کی راہداری کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم پاکستان نے خفیہ ملاقات کے دوران نریندر مودی کو بتایا کہ پاکستانی اسٹیبلیشمینٹ کی ’’پابندیوں‘‘ کی بناء پر ان کی دو طرفہ مذاکرات کی صلاحیت محدود ہے۔
عالمی لیڈر قومی مفادات کے تحت ’’خفیہ ملاقاتیں‘‘ بھی کرتے رہے ہیں۔ امریکہ کے وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کی اعانت سے چین کے وزیراعظم چواین لائی سے خفیہ ملاقات کی تھی جسے زیادہ عرصہ خفیہ نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ ملاقات انفرادی نہیں ریاستی سطح پر ہوئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی سے مبینہ خفیہ ملاقات انفرادی اور کاروباری نوعیت کی تھی یا دونوں ملکوں کے قومی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے تھی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے خفیہ ملاقات پر مبنی رپورٹوں کی تردید کی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ جب دونوں لیڈر اعلانیہ ملاقات کرتے رہے ہیں ان کو خفیہ ملاقات کی کیا ضرورت ہے۔ مناسب ہوگا اگر وزیراعظم خود تردید کریں کیونکہ پارلیمانی جمہوری اصولوں کے مطابق وزیراعظم عوام کو جواب دہ ہوتا ہے۔ ایک جہاندیدہ شخصیت نے پیرس میں نواز مودی اتفاقیہ ملاقات پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ملاقات کی ویڈیو تصویر میں ایک مکار اور دوسرا’’ سادہ‘‘ نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے نواز مودی خفیہ ملاقات کے بارے میں کہا ہے کہ دونوں لیڈر چونکہ عزم، حوصلہ اور جرات سے عاری اور بوجوہ خوف زدہ ہیں اس لیے انہوں نے خفیہ ملاقات کی جو Conflict of Interest یعنی مفادات کے ٹکرائو کا ثبوت ہے۔ میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور انکے خاندان کا کاروبار بھی پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ ریاستی منصب کو تجارتی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے قومی مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ شریف برادران کے سعودی عرب کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے دبائو میں آکر یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا اتحادی بننا قبول کرلیا تھا۔ یہ فیصلہ چونکہ پاکستان کے قومی و سلامتی کے تقاضوں کے برعکس تھا لہذا اسٹیبلیشمنٹ کے دبائو پر فیصلہ تبدیل کرنا پڑا جس سے پاک سعودی تعلقات کشیدہ ہوگئے ۔