گجرات کا مسلم قتلِ عام
گجرات بھارت کا ساتواں بڑا صوبہ ہے جو تقریباً ایک لاکھ چھیانوے ہزار مربع کلو میٹر پر محیط ہے۔ یہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے مغرب میں واقع ہے۔ درمیان میں رن آف کچھ کا علاقہ ہے جس کے تقریباً دس فیصد پر پاکستان کی عملداری ہے جبکہ بقیہ پر بھارت قابض ہے۔ گاندھی نگر گجرات کا دارالحکومت ہے مگر احمد آباد اس کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہی صوبہ مسلمانوں کے دوست نما دشمن نام نہاد مہاتما گاندھی کا جنم بھومی ہے۔ متنازعہ ریاست جونا گڑھ اب اسی صوبہ کا حصہ بن چکی ہے۔ سومناتھ کا مشہور مندر اسی ریاست میں واقع ہے۔ کٹر ہندو فرقہ پرست، مسلمانوں کے عظیم دشمن، 1947ء کے مسلم قتل عام کے منصوبہ ساز اور لاکھوں مسلمانوں کے قاتل سردار ولبھ بھائی پٹیل کا مجسمہ اسی مندر کے باہر ایستادہ ہے۔ ہر روز سینکڑوں ہندو اسے اپنا نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے اس کے چرن چھوتے ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ مسلمانوں کو شودر سے بدتر سمجھنے والی سادیت زدہ ہندو قوم اس مندر کے باہر مسلمانوں کے دوسرے بڑے قاتل نریندر مودی کا مجسمہ بھی بطور عقیدت نصب کر دے اور اس کے قدموں میں مسلمانوں کا بلیدان کر کے طمانیت حاصل کرے۔
گجرات میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً دس فیصد ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کا وجود ہندوئوں کو کبھی نہیں بھایا لیکن 1961ء اور 1971ء کے درمیان نفرت کی یہ سلگتی ہوئی چنگاری بار بارشعلہ بن کر بھڑکی اور گجرات کے سولہ اضلاع میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ اگرچہ اس کی بنیادی وجہ تو ہندو کی تنگ نظری اور مسلم دشمنی تھی مگر اس وقت پارٹیشن سے پہلے 1946ء میں احمد آباد میں مسلم لیگ کی موجودگی کو بہانہ بنایا گیا۔ یوں ’’تو نہیں تو تیرے باپ نے گالی دی ہوگی‘‘ کے مصداق پندرہ بیس برس کے بعد ہندو خونخوار بھیڑیے کا روپ دھار کر بے خبر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ستمبر 1969ء میں یہ قتل وغارت گری انتہا کو پہنچ گئی۔ سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ ہزاروں کو نہایت سفاکی سے قتل کردیا، ہر طرف وحشت و بربریت کا راج ہوگیا اور انتہائی درندگی سے سینکڑوں امت مسلمہ کی بیٹیوں کی عزتیں لوٹ لیں۔ یہ مسلم قتل عام کا ایک منظم منصوبہ تھا جس میں پولیس اور ارکان حکومت نے نہ صرف قاتلوں کا ساتھ دیا بلکہ مسلمانوں کی املاک و جائیداد تک کی تباہی اور لوٹ مار میں ان کی رہنمائی کی۔ مسلمانوں کے اس قتل عام میں تقریباً دو ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مسلمانوں کی کروڑوں کی جائیداد تباہ کردی گئی۔ جسٹس ریڈی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق فسادات کے دوران ہندوئوں نے 37 مساجد، 50 درسگاہوں اور 6قبرستانوں کو زمین بوس کردیا۔ گویا ہندوئوں کو مسلمانوں کے قبرستان بھی ناگوار تھے۔ مسلمانوں کے اس قتل عام کی آگ بھڑکانے میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) کے کمانڈر گوالکر کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ بھارتیہ جن سنگھ کے لیڈر بلراج مدھوک نے اشتعال انگیز، فرقہ وارانہ اور جوشیلی تقریریں کر کے ہندوئوں کے جذبہ منافرت کو خوب ہوا دی۔ پھر ان بپھرے ہوئے جوانوں نے دل کھول کر امت مسلمہ کی تذلیل کی اور جی بھر کر ان کا خون بہایا۔
1954 سے 1982 کے درمیان بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت کے زیرسایہ کم ازکم 6933 مسلم کُش فسادات ہوئے جن میں دس ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ یعنی ہر سال کم ازکم 248 مسلم قتل گاہیں قائم کی گئیں اور یہ تو وہ قتال ہے جو ریکارڈ میں آ سکا ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت میں کسی نہ کسی جگہ ہر روز مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہی رہتا ہے۔
7اکتوبر 2001ء میں نریندر مودی وزیراعلیٰ بنا تو گویا پنڈورا بکس کھل گیا۔ اب تو راشٹریہ سیوک سنگھ، ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی دہشت گرد تنظیموں کو کھلی چھٹی دے دی گئی بلکہ ان کی ہمت افزائی کی گئی۔ اب انہوں نے ہندو جوانوں میں کھلم کھلا ہتھیاروں کی تقسیم شروع کردی حتیٰ کہ پولیس، ہوم گارڈ اور تعلیمی اداروں میں بھی نوکری صرف انہی حضرات کو دی جاتی جن کے نظریات ان دہشت گرد تنظیموں کے مطابق ہوتے اور جن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف پہلے ہی نفرت کا ابلتا ہوا لاوا ہوتا۔ چنانچہ خدشات کے عین مطابق وہ وقت ضرورت مسلمانوں کو بچانے کے بجائے خود حکومتی طاقت ان کے خلاف استعمال کر کے اپنی مسلم دشمنی کی تسکین کرتے۔
ویسے تو میرٹھ ہو یا بھاگلپور، بہار ہو یا مراد آباد، ہر جگہ ایک ہی خونیں منظرنظر آتا ہے مگر گجرات میں یہ مسلم قتلِ عام اس قدر وسیع پیمانے پر اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ سرانجام دیا گیا کہ صرف دو تین دنوں میں ہزاروں مسلمان عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی ہندوئوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس قتل عام کو اب تقریباً 14 برس کاعرصہ گزر چکا ہے۔ کئی رپورٹیں بھی مرتب ہو چکی ہیں جن سے کافی حد تک حقیقت عیاں بھی ہو گئی ہے مگر اس نام نہاد سیکولر جمہوری نظام میں اس قتل عام کا منصوبہ ساز اور پوری حکومتی قوت کے ساتھ اس پر عمل کروانے والا نریندر مودی ابھی تک نہ صرف آزاد پھر رہا ہے بلکہ ہندوئوں نے بطور انعام مسلمانوں کے اس قاتل کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھ دیا ہے تاکہ اس کی دہشت گردی سے کوئی مسلمان محفوظ نہ رہ سکے۔
اگرچہ بھارت میں مسلمانوں کی خونریزی ہمیشہ سے ہی جاری رہی ہے مگر وقتاً فوقتاً اس میں اچانک تیزی آجاتی ہے۔ اپنی تدبیروں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ویشوا ہندو پریشد (VHP) کے جوائنٹ سیکرٹری نے بتایا کہ ’’ہم 1985 سے ہتھیار تقسیم کر رہے ہیں ، کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا حتیٰ کہ پولیس نے بھی نہیں‘‘ مختلف مقامات پر ہندو جوانوں کو تشدد اور قتل وغارت گری کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ستمبر 2001 میں لاء گارڈن میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس میں ہندوستان کی دفعہ 153C کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں اور مطالبہ کیا گیا کہ ’’قرآن میں 63 آیات کو نکال دیا جائے‘‘ گجرات پر حملے کی فضا تیار کرنے کے لئے اور ہندو جوانوں کے طیش اور غیظ وغضب کو اور زیادہ بھڑکانے کے لئے دھرم رکھشا سمیتی، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے لاکھوں فتنہ سامان اور اشتعال انگیز اشتہارات تقسیم کئے۔ اگرچہ اس قسم کے نفرت آفریں اشتہارات پہلے بھی تقسیم کئے جاتے رہے تھے جن میں مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کو کہا گیا تھا مگر اب کی دفعہ ان کا لب ولہجہ کچھ زیادہ ہی خونچکاں اور دہشت انگیز تھا۔ وہ زہر جو ان اشتہارات کے ذریعے گھولا گیا تھا، جلد ہی رنگ لایا اور نتیجہ مسلم کش جماعتوں کی عین مرضی کے مطابق نکلا۔
27 فروری2002 کے روز وشوا ہندو پریشد نے ’’گجرات بندھ‘‘ کو پیغام بھیجا کہ کل حملے کے لئے تیار رہو۔ اسی دن شام کو تین اور چھ بجے کے درمیان ضلع صابر کنٹھا کے گائوں لونائوڑا میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں ڈاکٹرانیل پٹیل (میڈیکل ڈاکٹر)، ڈاکٹر چندر کنٹھ پانڈیا (چیئرمین پولیس ہائوسنگ کارپوریش)، اشوک بھٹ (صوبائی وزیر صحت)، پربھات سنگھ چوہان (وزیر) کے علاوہ بھارتیہ جنتا پریشد (BJP)، راشٹریہ سیوک سنگھ ، بجرنگ دل اور ویشوا ہندو پریشد کے پچاس سرکردہ افراد نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں مسلمانوں کے قتل عام کا لائحہ عمل تیار کیا گیا اور آگ لگانے کے مختلف طریقوں پر غوروخوض کیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ تیس مختلف مقامات پر بیک وقت مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا جائے۔ (جاری)