حکومتی منصوبے الماریوں میں بند ڈیموں کی تعمیر کا شور ہوتا ہے عملی اقدامات نہیں: ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے کلائیمیٹ چینج پالیسی پر عمل درآمد کے لئے قائم کمشن کے سربراہ کو کارکردگی رپورٹ سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ آنے والی نسلوں کو موسمی تباہی سے بچانے کے لئے حکومتی منصوبے کاغذات پر بنا کر الماریوں میں بند کر دئیے جاتے ہیں۔ہر روز ڈیموں کی تعمیر کا شور مچایا جاتا ہے مگر عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سماعت کی۔ گلیشئیر مانیٹرنگ ریسرچ سینٹر کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ گذشتہ سالوں کی نسبت رواں برس جون سے ستمبر تک موسمی حدت میں اضافہ ہونے سے پاکستانی گلیشئیر زیادہ پگھلے ہیں۔ اس عمل کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تک چودہ ایم اے ایف پانی سٹور کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ اٹھارہ ایم اے ایف پانی سٹور کرنے کی گنجائش موجود نہ ہونے سے صاف پانی سمندر کی نذر ہو رہا ہے۔ پانی کی سٹوریج اور سستی بجلی کے لئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ بڑے ڈیم بنانا نہائت ضروری ہیں مگر فنڈز کی کمی اور اختلافات کی بنا پر بڑے ڈیم نہیں بن رہے۔ وزارت خزانہ کے فوکل پرسن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ڈیموں کی تعمیر اور کسی بھی منصوبے کو ترجیحات میں شامل کرنا محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کام ہے۔وزارت پانی و بجلی کے افسروں نے گذشتہ تین سالوں میں فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ ہی نہیں کیا۔ وزارت خارجہ کی خاتون افسر نے پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والی عالمی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی شرکت اور ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں کے دھویں سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اور پاکستانی حکمت عملی پر مبنی چار صفحات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ عدالت نے کہا کہ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے مگر حکومت موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ عوامی مفاد کے معاملے میں عدالتیں خاموش نہیں رہیں گی۔ رواں برس ملکی گلیشیئرز کے زیادہ پگھلنے میں اداروں کی اپنی کوتاہی شامل ہے۔ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔