• news

قومی اسمبلی: پی آئی اے کے بارے میں آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن کا احتجاج، واک آئوٹ، اعتراض ہے تو قرارداد لے آئیں: وزیر خزانہ

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے پی آئی اے کے بارے میں آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ایوان میں اعلان کیا اپوزیشن اس ایشو کو روزانہ اٹھائے گی اور واک آؤٹ کریگی۔ محمود خان اچکزئی نے تجویز کیا وزیراعظم پی آئی اے کے ایشو پر تمام پارٹیوں کے نمائندے بلائیں اور ان کے دلائل میں وزن ہو تو آرڈیننس کو واپس لے لیا جائے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے محمود خان اچکزئی کی تجویز کی تائید کی اور کہا وزیراعظم مصروف ہوں تو وزیر خزانہ اپنی نگرانی میں کمیٹی بنا لیں اور اس ایشو کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تمام جماعتوں سے نمائندے بلا لئے جائیں۔ اس ایشو پر مل بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں۔ یہ ملکی معاملہ ہے اور حکومت مشاورت پر یقین رکھتی ہے۔ سپیکر نے ایوان میں بحث کے بعد کہا اپوزیشن لیڈر سے کہیں گے ہر پارٹی سے ایک ایک نمائندہ دیا جائے تاکہ اس معاملہ پر مشاورت کی جائے۔ اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے کہا اپوزیشن لیڈر نے اہم نکتہ اٹھایا۔ ان کی تائید کرتا ہوں۔ آرڈیننس جس طرح لایا گیا اس سے ایوان کی افادیت گنوا دیں گے۔ شیخ رشید احمد نے کہا آرٹیکل 89 کے تحت اسمبلی کا اجلاس بلا لیا گیا تھا۔ اس لئے آرڈیننس جاری نہیں ہو سکتا۔ آرڈیننس رات کی تاریکی میں لایا گیا۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا آرڈیننس کی مذمت کرتے ہیں۔ آرڈیننس کو واپس لیا جائے۔ ایم کیو ایم کے سفیان یوسف نے کہا چیزیں ایوان میں نہیں آئیں گی تو ملک کے سٹریٹجک اثاثے ختم ہوتے جائیں گے۔ آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا 18 ویں ترمیم میں واضح تھا آرڈیننس سے گریز کیا جائے گا مگر آرڈیننس جاری کیا گیا۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا حکومت پی آئی اے کو کمپنی بنانے کے بارے میں آرڈیننس واپس لے۔ نجکاری فیڈریش کا ایشو ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر فیصلہ کیا جائے۔ ملک میں حکمران ہے قائد نہیں۔ قائد ہمیشہ مستقبل کا سوچتا ہے۔ آرڈی ننس قومی وحدت کے خلاف ہے۔ ان کی وفاقی وزیر رانا تنویر سے جھڑپ بھی ہوئی۔ وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہا اپوزیشن لیڈر نے داستان بیان کی ہے۔ ہم جواب دینا چاہتے ہیں جس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا میں نے کوئی داستان بیان نہیں کی۔ داستانیں حکمران بیان کرتے ہیں۔ ہم نے تنکا تنکا اکٹھا کر کے فیڈریشن بنائی۔ صوبوں کو کمزور کریں گے تو فیڈریشن کو نقصان ہو گا۔ ممکن ہے اس سے حکمرانوں کو کچھ وقت کے لئے فائدہ ہو۔ لیڈرکا اپنا ایجنڈا نہیں ہوتا۔ لیڈر یہ نہیں سوچتا حبیب بنک ایم سی پی کی نجکاری کرکے کس کو دیا جائے۔ یہ سوچ حکمران کی ہوتی ہے۔ لیڈر شپ کی کمی ہے۔ آج لیڈر ہو تو وہ پارلیمنٹ‘ فیڈریشن کو ترجیح دیتا اور مستقبل کو سوچتا۔ اور اپنے لئے نہیں سوچتا۔ ہم اس آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ قومی وحدت کے خلاف ہے۔ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ہم حکمرانوں کی ڈکٹیشن کو تسلیم نہیں کرتے۔ قوم سے وعدے پورے کریں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کریں۔ بجلی کوسستی کریں۔ اب تو 2018ء کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں تو پھر کیا میٹرو کے کھلونے چلانا حکومت کا کام ہے۔ بجٹ بڑھائیں۔ پاکستان کا مزدور اور تاجر چیخ رہا ہے۔ پارلیمنٹ سب کی چھاؤں ہے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرے نجکاری ہونا چاہئے یا نہیں ہونی چاہئے۔ قومی اسمبلی نے پاکستان حلال اتھارٹی بل 2015ء منظور کر لیا۔ جے یو آئی ف کی ترامیم بھی بل میں شامل کرلی گئیں۔ بل مسلم لیگ ن کے رانا تنویر حسین نے پیش کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی غیرموجودگی میں مولانا فضل الرحمن نے کہا حکومت نے ہماری ترامیم بل میں شام کیں اس پر شکرگزار ہیں۔ قومی اسمبلی میں قوانین پاکستان کی اشاعت کا بل 2015ء بھی منظور کر لیا گیا۔ بل وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایوان میں پیش کیا جو منظور کر لیا گیا۔ واک آئوٹ میں ایم کیو ایم کے ارکان نے بھی حصہ لیا۔ اپوزیشن نے صدارتی آرڈیننس کے اجرا کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا جب اسمبلی موجود ہے تو صدارتی آرڈیننس کیوں لایا گیا، اپوزیشن لیڈر خورشید نے انتہائی غصہ میں تقریر کی اور کہا جب سب کو معلوم تھا ایک دو دن بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے تو معاملہ کو اسمبلی میں پیش کیا جاتا، صدارتی آرڈیننس کیلئے اتنی جلدی کیوں کی گئی، خفیہ نجکاری کے خلاف نہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا اسحاق ڈار آرڈیننس واپس لینے کا اعلان کریں گے تو واک آئوٹ ختم کر دیں گے اور ایوان میں آ جائیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر غلام احمد بلور نے کہا آرڈیننس لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وزیر خزانہ نے کہا وہ جواب سن کے جائیں تو خورشید شاہ نے کہا گیلری میں بیٹھ کے سن لیں گے۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ارکان ایوان سے اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ فاٹا سے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے پی آئی اے کی نجکاری کی حمایت کردی۔ فاٹا کے ارکان نے واک آئوٹ میں بھی حصہ نہیں لیا جبکہ تحریک انصاف کے رکن گلزار خان نے پی آئی اے کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس پر اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ ایوان میں بدستور اپنی نشست پر بیٹھے رہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا اپوزیشن کو آرڈیننس پر اعتراض ہے تو مسترد کرنے کیلئے قرارداد لے آئے۔ سندھ حکومت کو پیش کش کی ہے وہ پاکستان سٹیل ملز خرید لے۔ پی آئی اے کی ری سٹرکچرنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے پی آئی اے کے معاملے پر کمیٹی کے قیام کی تجویز پر اتفاق کر لیا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی اجلاس میں ارکان کو بتایا بلیک واٹر کا کوئی اہلکار پاکستان میں نہیں۔ ارکان کو امریکیوں کی تفصیلات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں 320 سفارتکار کام کر رہے ہیں۔ امریکی قونصل خانہ لاہور میں 10، پشاور میں 20 اور کراچی میں 36 سفارتکار ہیں۔ کوئی خفیہ طریقے سے موجود ہے تو علم نہیں۔ شیریں مزاری نے دریافت کیا سفارتکاروں کی تعداد میں اتنا فرق کیوں ہے۔ امریکہ کے ساتھ خصوصی برتائو کی کیا وجہ ہے۔ مشیر خارجہ نے بتایا امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے میں 34 سفارتکار تعینات ہیں۔ شام میں پاکستانیوں کے لڑنے کی افواہیں ہیں، کوئی تصدیق نہیں۔ سپیشل رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب پر بحث بھی ہو گی۔ اس بات کا فیصلہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی صدارت میں ہونے والی بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ یہ بھی طے کیا گیا قومی اسمبلی کاررواں اجلاس 18دسمبر تک جاری رہیگا۔

ای پیپر-دی نیشن