حکومت نے اپوزیشن کو ’’کھڑاک‘‘ کرنے کا جواز فراہم کر دیا
قومی اسمبلی کا 27واں سیشن پیر کی شام شروع ہو گیا ہے ،گذشتہ روز پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں اسلام آباد،پنجاب اور سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج موضوع گفتگو بنے رہے ، یہ خبر گرد ش کرتی رہی کہ وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ،قومی اسمبلی کے رکن ملک ابرار اور انجم عقیل خان کی کوششیں رنگ لائی ہیں ،انہوں نے اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں واضح اکثریت حاصل کر لی ،وزیر اعظم نے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو وزارت کا قلمدان دے کر جو ٹاسک دیا ہے وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، انہیں اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کا ’’میئر ‘‘ بنوانے کی راہ ہموار کردی ہے ،اجلاس کے آغاز میں ہی پوزیشن جماعتوں نے 40ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کے نفاز اور پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے اپنے وجود کا احساس دلایا ،گو کہ متحدہ اپوزیشن کی داغ بیل نہیں ڈالی جا سکی تاہم حکومت نے اپوزیشن کو ایوان کی کارروائی کے بائیکاٹ کا جواز فراہم کر دیا ہے ،تحریک انصاف کے رہنمائوں کی سید خورشید شاہ سے ملاقات میں زوردار بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا جب سید خورشید شاہ نے ایوان میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے سامنے ’’بائیکاٹ ‘‘ کی تجویز رکھی تو دیگر جماعتوں نے طوعاً و کرہاً قبول تو کر لی لیکن جماعت اسلامی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور ایوان میں آکر بیٹھ گئی ،اب اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں روز انہ حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے کا موقع مل گیا ہے ،اپوزیشن ان حکومتی اقدامات کی واپسی تک ایوان کی کاروائی میں حصہ نہیں لے گی دراصل اپوزیشن نے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے یہ فیصلہ کیا ہے ، سید خورشید شاہ ، شاہ محمود قریشی، صاحبزادہ طارق اللہ ، صفیان یوسف، آفتاب احمد خان شیر پائو،شیخ رشید احمد، حاجی غلام احمد بلورنے پی آئی اے کی نجکاری کے صدارتی آرڈیننس کو مسترد کر دیا اور کہا کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر عجلت میں قومی ایئر لائن کو اونے پونے داموں فروخت کیا جا رہا ہے ،فاٹا کے شاہ جی گل آفریدی نے بھی پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کی لیکن وہ ایوان میں موجود رہے ،ایوان میں سید خورشید شاہ اور وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کے ساتھ تلخ کلامی ہو گئی رانا تنویر حسین نے کہا کہ ہم بھی ان کی داستان کا جواب دینا جانتے ہیں جس پر سید خورشید شاہ نے رانا تنویر کو کھری کھری سنا دیں، وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور محمد اسحقٰ ڈار نے پالیسی بیان میں کہا کہ ہم نے جو بھی فیصلے کئے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر آگے بڑھے ہیں، محمد اسحقٰ ڈار اس ٹیکسیشن پر اپوزیشن سے داد کی توقع رکھ رہے تھے لیکن اپوزیشن ان پر برس پڑی انہوں نے ان جانوروں کا خاص طور پر ذکر کیا کسی نے جانوروں کے ساتھ تصویریں نکالنی ہیں اور ان کے کھانے کیلئے باہر سے اشیاء منگوا رہے ہیں ان کو ٹیکس بھی دینا ہو گا، اگر جانور اتنے ہی پیارے رکھے ہیں تو ان کی خوراک کیلئے چیزیں منگوانے پر ٹیکس بھی دیناہو گا، محمود خان اچکزئی نے بڑی گاڑیوں پر نئے ٹیکس لگانے کی حمایت کی تاہم انہوں نے وزیر اعظم کو پی آئی اے جیسے قومی کی نج کاری پر تمام پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کا مشورہ دیا ۔