کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں مجاہدین ہیں، مودی سوچ بدلیں: مشرف
لندن (نیٹ نیوز) سابق صدر اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین ہیں۔ کراچی میں بی بی سی کو دئیے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر میں طالبان نہیں ہیں۔ ’ہم انہیں مجاہدین کہتے ہیں، انھیں کشمیر اور پاکستان میں بہت بڑی مدد حاصل ہے، کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی بہت ساری تنظیمیں نکلیں جو کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے لئے وہاں لڑنے اور اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھیں، یہ ہمارے فریڈم فائٹر ہیں۔‘ انہوں کہا کہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد ’مجاہدین‘ کا طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو گیا تھا۔ میں نے مجاہدین سے کہاکہ ’آپ الگ رہیں، یہ کیا انتہا پسندوں کے ساتھ مل رہے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ ہوا جس سے اور زیادہ گڑ بڑ ہوئی۔‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر جنرل ’’ر‘‘ مشرف نے کہا کہ ہم اپنے دور میں مسئلے کی حل کی طرف جا رہے تھے۔ یہ سنہری موقع ہوتا ہے جب دونوں ممالک کے سربراہ ایک ہی سوچ رکھتے ہوں۔ اٹل بہاری واجپائی اور ان کے درمیان یہ اتفاق ہوا تھا کہ بہت نقصان اور ظلم ہو رہا اس کو ختم کرنا چاہئے۔ ’اب نریندر مودی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے، وہ تو پاکستان کو مروڑنا اور دبانا چاہتے ہیں ان کی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہیں اگر وہ سوچ تبدیل نہیں کریں گے تو معاملہ آگے نہیں بڑے گا۔‘ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے بارے میں جنرل پرویز مشرف نے کہاکہ صاف نیت سے اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، دل و دماغ سے اس کے حق میں نہیں اور حکومت میں کچھ عناصر ہیں جو شدت پسندوں کے ساتھ نظریاتی طور پر ملے ہوئے ہیں۔’قومی ایکشن پلان میں فوج کو حکومت اور بیورو کریسی کی طرف سے جو مدد ملنا چاہئے تھی وہ نہیں مل رہی۔‘ سابق صدر نے لال مسجد آپریشن کے فیصلے کو درست قرار دیا او کہا کہ انھوں نے جو کیا وہ درست تھا۔ ’یہ دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی میں یقین رکھتے ہیں ان کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہئے تھا جو میں نے کیا۔ اب وہ دوبارہ اُبھر رہے ہیں حکومت کو چاہئے کہ فوری ایکشن لے کیونکہ جتنا دیر سے ایکشن لیں گے یہ جن اتنا ہی بڑا ہوتا رہے گا اور پھر بڑا ایکشن لینا پڑے گا۔‘ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کو انھوں نے مفاہمت نہیں انیٹلی جنس کی ناکامی قرار دیا، اور کہا کہ اس کو تسلیم کرنا چاہئے لیکن ان کی رائے ہے کہ وہ وہاں ایک بڑے عرصے سے مقیم نہیں تھا بلکہ آتا جاتا رہا ہوگا مقامی لوگوں کے میڈیا پر بیانات سے بھی یہی درست لگتا ہے۔ سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی کے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ناکام ادارہ قرار دینے کے بیان پر جنرل پرویز مشرف نے رضا ربانی کے موقف کو مسترد کیا اور کہا کہ انھوں نے پہلے ہی اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ ’ قومی سلامتی کونسل حکومت اور فوج پر ایک چیک ہے۔ حکومت پر آرٹیکل 58 ٹو بی کا چیک تھا جس کے ذریعے اسمبلی کو تحلیل کر دیا جاتا تھا، لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ صدر صاحب جب چاہتے اسمبلی کو تحلیل کردیتے، آرمی چیف مارشل لا لگا سکتا تھا اب وزیر اعظم اچھی گورننس نہیں کر رہا تو کیا کیا جائے؟ ان تینوں کا حل قومی سلامتی کونسل میں ہے۔‘ جنرل پرویز مشرف کے مطابق حکومت میں جب گڑ بڑ ہو رہی ہوتی ہے یقیناً لوگ فوج کے پاس بھاگ کر جاتے ہیں کہ کچھ کرو اب وہ کسی ادارتی تنظیم کاری کا حصہ نہیں ہے تو کیا کیا جائے؟ لوگ تو اس کی طرف جاتے ہیں کیونکہ طاقت ادھر ہے۔ جب آپ ان کو قومی سلامتی کونسل کا حصہ بنائیں گے تو کوئی آرمی چیف مارشل لا نہیں لگائے گا۔ نواب اکبر بگٹی بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات میں عدالتوں میں حاضری کے حوالے پرویزمشرف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ 9 مرتبہ عدالتوں میں پیش ہو چکے، لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی پیٹھ میں ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہے، جس کو فکس کیا گیا ہے، لیکن یہ خدشہ ہے کہ جھٹکوں وغیرہ سے سلپ ہوکر فریکچر خراب ہوجائے گا اس لیے انھیں احتیاط کرنی ہے۔ ’یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں آگے نہیں جا رہے ہیں، ہر ہفتے تاریخ پڑ جاتی ہے یہ بات عدالتوں کو بھی دیکھنا چاہئے۔‘