جب کچھ غیر سیاسی ہوتا ہے تو اچھا ہوتا ہے
کبھی کبھی کسی کے بیان کا ایک جملہ ہی پورے کالم جیسا ہوتا ہے۔ پورا کالم۔ بڑا ہی ظالم؟ ظالم پولیس کے نرغے میں شرمندہ اور ہارا ہوا ڈاکٹر عاصم عدالت میں جا کے پھٹ پڑا جیسے غبارہ ہوا زیادہ ہونے سے پھٹتا ہے۔ ’’جھگڑا کسی اور سے ہے اور گھسیٹا مجھے جا رہا ہے‘‘ جھگڑا تو ملٹری سے ’’صدر‘‘ زرداری نے ڈالا ہوا ہے۔ ’’بے چارے‘‘ ڈاکٹر عاصم کو مریض بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔
ایسی ہی بات خوبرو ماڈل ایان علی نے کی ہے۔ ماڈل ایان کو جب منی لانڈرنگ میں پکڑا گیا تو ’’صدر‘‘ زرداری اور رحمان ملک کا نام لیا جاتا رہا تھا۔ اب ماڈل ایان کو عدالت نے پاسپورٹ واپس دلا دیا ہے۔ یہ پاسپورٹ دیا گیا ہے کہ وہ باہر چلی جائے یعنی دبئی چلی جائے وہاں ’’صدر‘‘ زرداری اس کا انتظار کر رہے ہیں۔
اب پتہ چلا ہے کہ ایان علی 70کروڑ 59لاکھ کے اثاثوں کی مالک نکلی۔ ابھی سونے کے زیورات اور بیش بہا ملبوسات اس کے علاوہ ہیں وہ بھی کئی کروڑ کے ہوں گے۔ اس ماڈل نجانے کس کی رول ماڈل ایان علی نے زبردست بات عدالت میں کی جو ’’صدر‘‘ زرداری کے رازدار دوست ڈاکٹر عاصم نے کی۔ ماڈل نے کہا ’’میں بے گناہ ہوں، ان کو پکڑا جائے جو برسوں سے منی لانڈرنگ کر رہے ہیں۔‘‘ اس میں سیاستدان افسران اور کئی امیر کبیر انسان شامل ہیں۔ اس حوالے سے ماڈل کے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کیا کہتے ہیں؟ انہیں گورنر پنجاب ’’صدر‘‘ زرداری نے بنایا تھا۔اور ہٹایا بھی انہوں نے ہی تھا۔ انہوں نے ہی کھوسہ صاحب کو ماڈل ایان علی کا ایڈووکیٹ مقرر کیا ہے۔ لطیف کھوسہ نے ’’نقد‘‘ فیس وکالت نہیں لی ہو گی۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کے کرپشن مقدمات کے پیسے نہیں لئے تھے ڈاکٹر بابر اعوان نے زرداری مقدمات کی فیس مانگ لی تو ’’صدر‘‘ زرداری ناراض ہو گئے۔ اب سنا ہے کہ ’’صلح‘‘ ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے بابری مسجد کے حوالے سے زبردست کالم لکھا ہے۔ جیسے اس مسجد میں وہ امام مسجد رہے ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اختلافی نوٹ بولتے بولتے وہ کبھی اعترافی نوٹ لکھیں گے؟ وہ خطیب تو کمال کے ہیں اب ادیب بھی بن گئے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم خاصے ’’کامیاب‘‘ آدمی ہیں۔ امیر کبیر ہیں مگر وزیر شذیر بن گئے۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کی دوستی اور دشمنی کو نہیں جانتے۔ وہ ڈاکٹر عاصم کے لئے سب کچھ جانتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے انہیں وزیر شذیر کیوں بنایا تھا؟ ڈاکٹر صاحب کو اب پتہ چل رہا ہو گا کہ وہ وزیر کیوں بنائے گئے تھے؟ پولیس کے نرغے میں شرمندہ اور ہارے ہوئے آدمی کی طرح نظر آتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی سوچتے تو ہوں گے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ وہ سیاستدان تو نہیں ہیں نہ ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو سیاستدان ہیں۔ وہ بھی وزیر شذیر بننے کی امید سے ہیں۔ دونوں ’’ڈاکٹروں‘‘ کا مستقبل ایک جیسا ہے۔ سنا ہے رینجرز نے ڈاکٹر قیوم سومرو کے لئے بھی بہت کچھ معلوم کر وا لیا ہے؟ شیخ ریاض نے اپنے لئے راہ ہموار کر لی ہے۔ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ وہ مریض بھی نہیں ہیں۔ سیاست میں آنے والے ڈاکٹر کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں شیخ صاحب کے اثاثے بیرون ملک نہیں ہیں۔ ماڈل ایان کے تو ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے ہیں تو نواز شریف کے بھی ہیں؟
پیپلز پارٹی کے فرینڈلی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ پانچ چھ آدمیوں کو پکڑنے سے کیا ہو گا۔ یہ تو ٹھیک کہا ہے شاہ صاحب نے؟ کم از کم پانچ چھ سو آدمی پکڑے جائیں تو بات بن جائے گی۔ ان میں خورشید شاہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر نے ایک بات تو اچھی کی ہے کہ میں اس آدمی کو جانتا ہوں جس کے کتوں کا ذکر اسحاق ڈار نے کیا ہے۔ عمران خان کے کتوں کا ذکر ریحام خان نے بھی کیا ہے۔ آپ نے بابا بلھے شاہ کی کافی سنی ہو گی۔ غور کرنے والے غور کریں
کتے تیں تھیں اُتے
ساری رات نہ سُتے
بازی لے گئے کتے
تیں تھیں اُتے
پاکستان میں اپوزیشن لیڈر تو صرف ایک ہی تھا۔ چودھری نثار علی خان، ان کی پوزیشن اب بھی یہ ہے کہ وہ وزیر ہو کر بھی کچھ کچھ اپوزیشن لیڈر ہیں۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو پوزیشن رکھتا ہو اور اپوزیشن بھی رکھتا ہو۔ اس وقت ملٹری کے حوالے سے جنرل راحیل شریف اور سول معاملات میں لوگ چودھری نثار کو پسند کرتے ہیں۔ کوئی تو ہو جو وزیر ہو جائے پھر بھی لوگ اس سے محبت کریں۔ وہ بات کرے تو سمجھیں گے یہی بات ہمارے دل میں تھی۔ اسمبلی میں اعلیٰ اپوزیشن ضروری ہے تو کابینہ میں بھی ضروری ہے ۔
’’صدر‘‘ زرداری اب دبئی سے کراچی سیاست اور حکومت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کہتے ہیں کہ کراچی آپریشن غیر سیاسی ہے۔ شاید اسی لئے کامیاب ہے۔ کراچی میں زندگی لوٹ آئی ہے ’’صدر‘‘ زرداری کو بے چینی ہے کہ زندگی کے نام پر جو شرمندگی اور درندگی ہم نے پھیلا رکھی تھی وہ کدھر گئی؟ نجانے کیا ہے کہ جب پاکستان میں کچھ غیر سیاسی ہوتا ہے تو کچھ اچھا ہوتا ہے۔ سیاستدان جب ماحول کو سیاسی بناتے ہیں تو وہ غیر قانونی ہو جاتا ہے۔ کراچی میں تو غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہو گیا ہے اور سیاستدان سیاسی مہم چلاتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ قوم بنتے چلے جا رہے ہیں؟
’’صدر‘‘ زرداری دبئی سے بیان جاری کرتے ہیں ’’کراچی میں آپریشن کے نام پر مذاق بند ہونا چاہئے‘‘ مذاق تو ’’صدر‘‘ زرداری نے بنایا ہے۔ کرپشن میں ریکارڈ بنایا ہے اور اصل کام آف دی ریکارڈ کے طور پر کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ الطاف حسین بن جائیں جو لندن سے ایم کیو ایم چلا رہے ہیں۔ یہ مذاق کیا کم ہے کہ انہوں نے دبئی کو لندن سے بھی بڑھا چڑھا کر مشہور کر دیا ہے۔
’’صدر‘‘ زرداری بتائیں کہ یہ مذاق نہیں ہے تو کیا ہے کہ قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں وہ رہتے کراچی میں ہیں۔ بلدیاتی الیکشن میں مذاق بنے ہوئے ہیں۔ کراچی سے سندھ کابینہ میں ایک وزیر شذیر بھی نہیں ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ اس پر بحث ہوئی کہ کراچی کے ساتھ سب سے بڑا مذاق کیا ہے؟ جواب آیا کہ قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ کیا وہ واقعی وزیر اعلیٰ ہیں؟ سوال انہوں نے ایک اہم اجلاس میں کراچی کے حوالے سے نواز شریف سے کیا مگر جواب چودھری نثار نے دیا۔ شاہ صاحب کے دانت کھٹے کر دئیے۔ انہوں نے محسوس نہ کیا کہ ان کے دانت اس بڑھاپے میں مصنوعی ہیں۔