’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ اپوزیشن کا وزیر خزانہ کی وضاحتیں سننے سے انکار
قومی اسمبلی کے اجلاس میں منگل پرائیوٹ ممبرز ڈے ہو تاہے لیکن یہ دن جو کلی طور پر ارکان کی نجی کارروائی کے لئے مختص ہوتا ہے ارکان کی عدم دلچسپی کے باعث ایوان میں کورم کا ٹوٹ جانا افسوس ناک امر ہے کچھ وزراء تو اپنے آپکو قومی اسمبلی کے سامنے ’’جواب دہ‘‘ نہیں سمجھتے جب وزراء ہی ایوان میں آنے کے کی زحمت گوارہ نہ کریں تو پھر ارکان بھی ایوان میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ،ایوان میں وزراء کی برائے نام حاضری ہی کورم کا مسئلہ پیدا کرتی ہے جب حکومت اور اپوزیشن میں تعلقات کار کشیدہ ہوں تو اپوزیشن حکومت کے لئے شرمندگی کا ساماں پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ،تحریک انصاف کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ حکومت کے لئے ایوان میں مشکلات پیدا کی جائیں ،پرائیویٹ ممبرز ڈے پر کورم کی نشاندہی پارلیمانی روایات کے منافی ہے اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ارکان ہی اپنا بزنس ایوان میں زیر بحث لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اپوزیشن ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ کے ایجنڈا پر کام کر رہی ہے ،منگل کو تحریک انصاف کے رکن نے کورم کی نشاندہی کر دی ،پہلی گنتی میں کورم پورا نہ نکلنے پر ڈپٹی سپیکر نے ایوان میں گھنٹیاں بھجوا دیں، وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ، وزیرمملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب سمیت دیگر وزراء کی دوڑیں لگ گئیں، لابیوں، چیمبرز اور کیفے ٹیریا میں خوش گپیوں میں مصروف ارکان کو فوری طور پر ایوان میں لا یا گیا، متعدد وزراء اور ارکان ہانپتے کانپتے ایوان میں پہنچے، کورم پورا ہونے پر ایوان کی کارروائی جاری رکھی گئی۔ دراصل اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے ایوان کو نہ چلنے دینے کی حکمت عملی کے تحت کورم کی نشاندہی کا فیصلہ کیا ہے ، اپوزیشن ارکان لابی میں بیٹھے حکومتی ارکان کی تعداد کم ہونے کا انتظار کرتے رہے، معمول کی کارروائی کے دوران جب ایوان میں حکومتی ارکان کی تعداد کم ہوئی تو اپوزیشن نے حکمت عملی کے تحت پہلے آزاد رکن جمشید دستی کو کورم کی نشاندہی کیلئے ایوان میں بھیجا جنہیں کورم کی نشاندہی کرنے کی کوشش پر وزیرمملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب ان کی نشست پر چلے گئے اور انہیں کورم پوائنٹ آئوٹ نہ کرنے پر آمادہ کرلیا، جمشید دستی ناکام کوشش کے بعد ایوان سے باہر چلے گئے، جس پر اپوزیشن نے پی ٹی آئی کے رکن انجینئر حامد الحق کے کورم کی نشاندہی کے لئے ایوان میں بھیج دیا ،حامد الحق کی نشاندہی پر ڈپٹی سپیکر نے کشمیر پالیسی پر جاری بحث روک کر اسمبلی عملے کو ارکان کی گنتی شروع کرادی لیکن حکومتی ارکان کے ایوان میں واپس آ نے پر کورم پورا ہو گیا ،منگل کو بھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے نئے ٹیکسوں کے نفاز اور پی آئی اے کی نج کاری کے خلاف دھواں دھار تقریر کی اور پھر اپوزیشن نے 40ارب کے نئے ٹیکسوں اور پی آئی اے کے حوالے سے جاری صدارتی آرڈیننس کیخلاف دوسرے روز بھی ایوان سے واک آئوٹ کیا جس کے بعد اپوزیشن ایوان میں واپس نہ آئی اپوزیشن نے سپیکر کے چیمبر میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحقٰ ڈار کی کی وضاحتیں سننے سے انکار کر دیا ۔وفاقی وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر کہا ہے کہ 40ارب کے جو نئے ٹیکس لگا ئے جا رہے ہیں ان میں 58فیصد صوبوں کو دئیے جائیں گے ،اگر 40ارب میں سے 24ارب صوبوں کو چلے جائیں گے توآ پ کے پاس کیا بچے گا،کیو ں پھر یہ بدنامی اپنے سر لے رہے ہیں۔ سید خورشید شاہ نے ’’میٹرو بس‘‘ کو کھلونا بس کا نام دے دیا اور سوال کیا ہے کہ اس پر 50ارب ڈالر کہاں سے خرچ کئے گئے منگل کو ایوان میں اپوزیشن کی عدم موجودگی میں حکومتی کشمیر پالیسی پر بحث کی گئی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہر اور وزیر مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے واضح کیا ہے کہ حکومت مسئلہ کشمیر پر کوئی کمپرومائز کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے مسئلہ کشمیر پر نئی تجویز پیش کر دی اور کہا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کو اپنی شہ رگ اور اٹوٹ انگ قرار دینا چھوڑ دیں اور کشمیر کا تنازعہ دونوں طرف کے کشمیریوں کو خود مل بیٹھ کر حل کرنے کا موقع دیں دونوں ملک خود مختار کشمیر کے آپشن کو بھی مسئلے کے ایک ممکنہ حل کے طور پر تسلیم کریں وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے کہا کہ ارکان نے کشمیر بارے پوری قوم کی ترجمانی کی ہے، میجر (ر) طاہر اقبال نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے مسئلہ کشمیر خود یو این او میں اٹھایا تھا ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل سید خورشیدشاہ کی زیرصدارت اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا اجلاس میں شاہ محمود قریشی سمیت اقبال محمد علی، شیخ رشید احمد اور صاحبزادہ طارق اللہ شرکت کی ۔اپوزیشن نے 40ارب روپے کے نئے ٹیکسوں اور پی آئی کی نج کاری کے خلاف احتجاج کے بعد بائیکاٹ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اب دیکھنا یہ اپوزیشن کب تک احتجاج کرتی ہے اور حکومت کو کس حد تک زچ کرنے میں کامیاب ہوتی اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان آرمی ایکٹ سے مذہب اور مسلک کے الفاظ حذف کرنے کا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے ۔ حکومتی اتحادی جمعیت علماء اسلام (ف)بل کی محرک ہے ۔ وزارت دفاع نے بل کی مخالفت نہیں کی جس پر بل کو متعلقہ مجلس قائمہ کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ نجی کارروائی کے دن ایوان میں سات مختلف بلز پیش کئے گئے ۔