• news

پی آئی اے کی نجکاری : اپوزیشن نے حکومت کو نظرثانی پر مجبور کر دیا

بالآ خر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج رنگ لے آیا مسلسل دو روز تک جاری رہنے والے احتجاج نے حکومت کو اپوزیشن کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا۔ وزیر خزانہ نے 27ویں سیشن کے آغاز سے قبل پی آئی اے کی نجکاری کے لئے آرڈننس جاری اور 40ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کر کے اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں ’’کھڑاک ‘‘ کرنے کا جواز فراہم کر دیا اس اقدامات نے منقسم اپوزیشن میں جان پیدا کردی۔ اپوزیشن کی جو جماعتیں ایک میز پر بیٹھنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی تھیں حکومت کو زچ کرنے کے لئے اکھٹی ہو گئیں۔ بالآخر حکومت کو اپنے لائے ہوئے آرڈیننس پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی میں ایاز صادق نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ خورشید شاہ نے ایوان کو’’سب اچھا‘‘ کی نوید سنائی اور کہا کہ ’’ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کی جائے گی اور ملازمین کو بھی فارغ نہیں کیا جائے گا ‘‘ اب دیکھنا یہ ہے پارلیمانی کمیٹی پی آئی کے کی نجکاری کے معاملہ کا جائزہ لینے میں کتنا وقت لگاتی ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا آئندہ چند دنوں میں آئی ایم ایف سے 500ملین ڈالر کے قرض کی آخری قسط ملنے والی ہے قسط ملنے کے بعد حکومت پی آئی کی نجکاری کا ارادہ ترک کر دیتی یا اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے جلد اس بارے میں صورت حال واضح ہو جائے گی۔ سید خورشید شاہ ان دنوں اپنے آپ کو ہارڈ لائنر ثابت کر نے کے مسلسل حکومت کے خلاف ’’ پوائنٹ سکورننگ‘‘ کر رہے ہیں انہوں نے ایوان میں وزیراعظم کی عدم دلچسپی اور وزراء کی غیر حاضری کو ایک بار پھر ایشو بنایا چونکہ حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان گاڑھی چھنتی ہے وزراء مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب‘ جام کمال اور پیر امین الحسنات جو اس وقت ایوان میں براجمان تھے نے حکومت کا دفاع کرنے اور جواب دینے کی بجائے قائد حزب اختلاف کی جارحانہ تقریر کے جواب میں مسکراہٹوں کے پھول برساتے رہے‘ سید خورشید شاہ نے پاکستان کے دورے پر آئی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے حوالے سے وزیر اعظم پر تنقید کر ڈالی اور عجیب انداز میں کہا کہ وزیراعظم بے شک سشما سوراج کے ساتھ لگے رہیں مگر ایوان میں بھی آئیں انہوں نے جوش خطابت میں آفتاب شیخ کو معصوم وزیر اور پیر امین الحسنات کو وزارت کے دفتر میں نہ گھس سکنے والا وزیر خطاب دے ڈالا۔ انہوں نے چوہدری نثار علی خان کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’ماضی میں اپوزیشن لیڈر ایوان میں نہیں آتے تھے میں روز بیٹھا رہتا ہوں۔

ای پیپر-دی نیشن