ڈاکٹر عاصم7 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے، دہشت گردوں کے علاج کا ثبوت نہیں ملا: ڈی ایس پی پولیس رہا نہیں کر سکتی: وکیل رینجرز
کراچی (وقائع نگار+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) کراچی میں احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیا اور واضح کیا ہے کہ نیب کے علاوہ کسی اور ادارے کی ان تک رسائی نہیں ہوگی۔ دہشت گردی کے مقدمے میں پیشی کے بعد نیب نے انہیں نیب عدالت کے جج کے روبرو پیش کیا۔ نیب کے افسر نے 15 روز کے ریمانڈ کی درخواست کی تاہم جج سعید قریشی نے سات روز کا ریمانڈ دیا۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ ڈاکٹر عاصم سے خاندان کی ملاقات کو یقینی بنایا جائے اور انہیں کھانا گھر سے فراہم کیا جائے۔ اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج نعمت اللہ پھلپوٹو نے سابق وفاقی وزیر کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم پر عائد دہشت گردی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں۔ رینجرز نے ان پر دہشت گردوں اور ملزمان کو پناہ دینے اور رعایتی نرخوں پر علاج معالجے کے الزامات عائد کئے تھے۔ مقدمے کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردی کے الزامات میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے لہٰذا انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ سابق تفتیشی افسر نے بھی کئی الزامات مسترد کردئیے تھے۔ اس پر عدالت نے ان سے سوال کیا کہ انہیں رہا کردیا گیا ہے یا کیا جائیگا؟ تفتیشی افسر نے آگاہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم رہا ہیں لیکن عدالت کے احترام میں انہیں لایا گیا۔ عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ 497 سی آر پی سی کے تحت تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے جس کی شق کی تحت ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا گیا، تفتیشی افسر نے یہ رپورٹ دس روز میں جمع کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ سندھ حکومت اور رینجرز میں اختیارات کی کشیدگی کا عکس عدالت میں بھی نظر آیا جب رینجرز کے وکلا نے ڈاکٹر عاصم حسین کو بری نہ کرنے کی درخواست کی۔ پبلک پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ پولیس کے تفتیشی افسر نے ان سے مشاورت نہیں کی اور یہ بات غلط ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر عاصم حسین نے جن دہشت گردوں کا علاج کیا وہ مطلوب ملزمان تھے۔ لیاری امن کمیٹی کے ظفر بلوچ اور عمر کچھی سمیت دیگر کے علاج کا ریکارڈ عدالت کے پاس موجود ہے، اس کے علاوہ ڈپٹی میڈیکل افسر بھی اعترافی بیان میں یہ قبول کرچکے ہیں لیکن تفتیشی افسر نے اعلیٰ سیاسی عہدیداران اور اعلیٰ پولیس حکام کہ کہنے پر یہ کیا ہے۔‘ ڈاکٹر عاصم حسین نے عدالت سے مخاطب ہو کر کہا کہ رینجرز کی طرف سے جو بھی بل پیش کیے گئے وہ کمپیوٹر سے تیار کیے گئے ہیں، انکا کوئی میڈیکل ریکارڈ دستیاب نہیں کہ کس ڈاکٹر نے اور کیا علاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح رینجرز نے ہپستال کا محاصرہ کر کے ریکارڈ حاصل کیا۔ ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ رینجرز کی 90 روز کی حراست کے دوران رینجرز ، قومی احتساب بیورو اور دیگر ادارے ان سے پوچھ گچھ کرتے رہے ہیں۔ اس موقع پر قومی احتساب بیورو کے وکیل نے عدالت کو تحریری درخواست پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری زمین پر قبضے، رقومات کی غیر قانونی طریقے سے منتقلی اور دیگر معاملات میں ان سے تفتیش کرنی ہے لہٰذا انہیں نیب کی تحویل میں دیا جائے جس کے بعد انہیں نیب کے حوالے کر دیا گیا۔ تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے رپورٹ میں موقف اپنایاکہ ڈاکٹر عاصم حسین پر زخمی دہشت گردوں کے علاج کا کوئی ثبوت نہیں ملا لہٰذا ان پر دہشت گردی کی دفعہ ہی نہیں لگتی۔ اس موقع پر رینجرز کے لاء افسر نے موقف اپنایاکہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف شواہد موجود ہیں جبکہ پولیس کو اے ٹی سی کے ملزم کو رہا کرنے کا سرے سے اختیار ہی نہیں، آئی جی سندھ نے مدعی کو بتائے بغیر تفتیشی افسر تبدیل کیا جوکہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ سرکاری وکیل مشتاق جہانگیری نے بھی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ مشتاق جہانگیر ی نے اس موقع پر ضیاء الدین ہسپتال کے ڈاکٹر، زخمیوںکو ہسپتال پہنچانے والے رکشہ ڈرائیور کا اعترافی بیان عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بابا لاڈلہ، ان کے اہلخانہ سمیت کئی زخمیوںکوہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ اس موقع پر بل بھی دکھائے گئے۔ عدالت نے نیب کی درخواست منظور کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کو نیب کے حوالے کردیا جبکہ پولیس سے 7 اے ٹی اے اور 494 سیکشن کے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے وکیل نے کہاکہ یہ ساری سازش ہے جبکہ 90 روز رینجرز نے حراست میں رکھا جو غیرقانونی ہے، خدشہ ہے کہ نیب یا ایف آئی اے کی آڑ میں کسی اور کے حوالے کر دیا جائے۔ رینجرز کی طرف سے عدالت میں دہشت گردوں کی معاونت اور ان کے علاج سے متعلق شواہد پیش کئے گئے۔ ڈاکٹر عاصم کے وکیل نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی 100دن بنا ثبوت حراست میں نہیں رکھا جاتا، ان فائلوں کے پلندے میں کوئی ثبوت نہیں جس پر ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا اور نیب کے تفتیشی افسر میں تلخ کلامی ہوگئی۔ ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ میں جان دے دوں گا، جویہ چاہتے ہیں، وہ بیان کبھی نہیں دوں گا جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ کوئی اس عدالت سے اپنی مرضی کا حکم نہیں لے سکتا، عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی، ایسے بیانات نہ دیئے جائیں جس سے عدالت کا وقار مجروح ہو۔ عدالت نے چالان پیر تک طلب کر لیا۔ ڈاکٹر عاصم نے مزید کہا کہ میں بھاگنے والا نہیں، میں فوجی ہوں اور میرے وکیل بھی فوجی ہیں۔ ضیاء الدین ہسپتال میں علاج کرانے والے ملزمان کے بلز میں کئی نام شامل ہیں۔ ان میں حنیف، اختر بلوچ، ماجد بلوچ، سہیل ڈاڈا، آصف نیاز شامل ہیں۔ ریکارڈ میں ملزمان کے علاج پر بلز میں رعایت کیلئے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے نام بھی موجود ہیں۔ علاج کرانے والے ایسے ملزمان بھی شامل ہیں جن کے سر کی قیمت 5 لاکھ سے 20 لاکھ روپے مقرر تھی۔ رینجرز کے لاء افسر نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم نے خود دہشت گردوں کا علاج کرنے کا اعتراف کیا تھا اور جن دہشت گردوں کا علاج کیا گیا ان میں مفرور دہشت گردوں پر حکومت نے انعام کا اعلان بھی کر رکھا تھا جبکہ ڈاکٹر یوسف ستار بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم نے دہشت گردوں کا علاج کیا۔ 7 سینئر ترین افسروں کو ڈی ایس پی کیسے نظرانداز کر سکتا ہے۔ عدالت نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا معاملہ التوا میں ڈالتے ہوئے کہا کہ چالان جمع ہونے پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کیخلاف نیب نے عدالت میں چالان پیش کیا۔ نیب چالان میں ڈاکٹر عاصم کے مقدمہ نمبر 231097 کی تفصیلات اور تفتیش کا ذکر ہے۔ یہ مقدمہ 18 ستمبر کو نیب کراچی میں سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق نیب حکام کا ڈاکٹر عاصم سے آدھے گھنٹے کا پہلا تفتیشی سیشن بھی مکمل ہو گیا۔ نیب نے سوال کیا کہ آپ کے مالی معاملات دیکھنے والا فرنٹ مین کہاں ہے اسے بلائیں ہم نے اسے گرفتار کرنا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے جواب دیا کہ میں اس سے رابطے پر ہوں لیکن وہ میرے کہنے پر نہیں آئیں گے۔ دریں اثناء ڈاکٹر عاصم کا گزشتہ روز سرکاری ڈاکٹر سے طبی معائنہ کرایا گیا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عاصم کی حالت تسلی بخش ہے۔ دریں اثناء رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف مقدمے میں تفتیش کرنے والے پولیس افسر کو تبدیل کر کے کسی غیر جابندار افسر کو لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ رینجرز لا آفیسر کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردوں کے علاج و معالجے سے متعلق مقدمے میں تفتیش کرنے والے پولیس افسر ڈی ایس پی الطاف حسین مقدمے پر اثرانداز ہو رہے ہیں، ڈی ایس پی الطاف حسین سیاسی اور اعلیٰ پولیس حکام کے دباؤ پر ملزم کو سپورٹ کر رہے ہیں لہٰذا تفتیشی آفیسر مقدمے سے علیحدہ کر کے کسی غیر جانبدار شخص کو تعینات کیا جائے۔