پاکستان، بھارت رابطوں میں رکاوٹیں اچھی بات نہیں ، افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اثرو رسوخ استعمال کر رہے ہیں: نوازشریف
وزیراعظم کے طیارے سے (نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں رابطے اہم ہیں، ان میں رکاوٹیں اچھی بات نہیں، پاکستان ہمیشہ سے امن کا خواہاں ہے تاہم اپنی ریڈلائنز سے واقف ہیں۔ ترکمانستان سے وطن واپسی پر طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ تاپی کی تکمیل سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی، یہ منصوبہ ملک کیلئے ’’گیم چینجر‘‘ ہو گا، منصوبہ کے تحت سالانہ ایک ارب 30کروڑ کیوبک فٹ گیس حاصل ہو گی، پاکستان افغانستان اور بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، تمام مسائل کا حل مذاکرات میں ہی ہے یہی ہمارا اصول اور یہی ہمارا عزم ہے، ہماری حکومت نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا یہ اس کی اخلاقی ذمہ داری تھی یہ کسی بیرونی دبائو کا نتیجہ نہیں تھا۔ دنیا کا مستقبل اس خطے سے وابستہ ہے جس کی بنیادی وجہ تجارتی استعداد میں تیز رفتار اضافہ اور سنٹرل ایشیائی ریاستوں کا جنوبی ایشیا اور چین سے وسیع تر رابطہ ہے۔ تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ اس میں شامل تمام ممالک کی معیشتوں کیلئے یکساں مواقع فراہم کرے گا۔ جنوبی ایشیا اور چین میں 2سے 3ارب افراد بستے ہیں جو کہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کے حب کے طور پر ابھرتی ہوئی ایک بے مثال صلاحیت ہے۔ یہ ان کا دیرینہ خواب ہے کہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان توانائی کے تعلقات اور مضبوط رابطے ہوں۔ توانائی کی سپلائی کے بعد پاور پلانٹس موثر طور پر کام کرتے ہوئے تیل سے چلنے والے یونٹس کے مقابلے میں سستی بجلی پیدا کریں گے۔ اس منصوبے سے توانائی کی 70فیصد ضرورت پوری ہو گی، سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہو گی جسے کسی طور پر بھی کوئی چھوٹی بچت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے رابطے بڑھانے کے اپنے تصور کے حوالے سے تاجکستان اور ازبکستان کے صدور سے بھی بات کی ہے۔ انہوں نے اسے سراہا اور اس کی حمایت کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر ملک اپنے معاشی مفادات کا تحفظ اور امن چاہتا ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات میں حالیہ پیش رفت کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ وہ پاکستان کے مفادات پر ٹھوس موقف اپنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان اور بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 65 سال کے دوران ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں نشیب و فراز آئے تاہم اب امید ہے کہ یہ نشیب و فراز ختم ہونگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات میں ہی ہے یہی ہمارا اصول اور یہی ہمارا عزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیرس میں بھارتی وزیراعظم مودی کو بتایا کہ اگر آپ بات چیت چاہتے ہیں تو ہم بات چیت کریں گے۔ بنکاک میں قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات اور اب بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کی پاکستان آمد سے بہتری آئے گی۔ مشترکہ اعلامیہ سے توقع ہے کہ معاملات آگے بڑھیں گے۔ افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ صدر اشرف غنی سے کہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے تعاون کریں گے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان کا طالبان پر کوئی کنٹرول نہیں تاہم وہ کچھ ذرائع سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو میز پر لائیں گے۔ ہم اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے افغان مسئلے پر مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں جو پاکستان کی جانب سے کاوشوں کا تسلسل ہے۔ یہ صرف پاکستان کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ پاکستان کسی دوسرے ملک میں کیسے دہشتگردی برداشت کر سکتا ہے جب کہ یہ خود اس عفریت کا شکار ہے، اس کے خلاف قوم نے بے مثال قربانیاں دی ہیں، اس کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہماری حکومت نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا یہ اس کی اخلاقی ذمہ داری تھی یہ کسی بیرونی دبائو کا نتیجہ نہیں تھا۔ قومی ایکشن پلان پر وسیع پیمانے پر سیاسی اتفاق رائے اور آئین میں ترامیم کے بعد اب فوجی عدالتوں نے سزائیں دینا شروع کر دی ہیں۔ کراچی میں امن بحال ہوا ہے اور اس کے رہائشی اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے حکومتی کوششوں کو عالمی رہنمائوں نے بھی سراہا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں رابطے اہم ہیں، ان میں رکاوٹیں اچھی بات نہیں، پاکستان ہمیشہ سے امن کا خواہاں ہے تاہم اپنی ریڈلائنز سے بھی واقف ہیں۔ افغانستان میں امن کی بحالی بہت ضروری ہے، اقتصادی سرگرمیوں سے خطے میں عسکریت پسند اور تشدد پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ تاپی گیس منصوبے سے علاقائی رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ افغانستان سے معاملات مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات میں ایک قدم آگے اور ایک پیچھے والا رویہ درست نہیں۔ طالبان کے حوالے سے صرف پاکستان سے توقع رکھنا درست نہیں، تمام سٹیک ہولڈرز کو کردار ادا کرنا ہو گا تب ہی مثبت نتائج برآمد ہونگے۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے کبھی دوغلی پالیسی نہیں رہی ہمسایہ ممالک خصوصاًبھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ افغانستان سے معاملات مذاکرات سے حل کرانا چاہتے ہیں۔ مذاکرات میں کامیابی چاہتے ہیں تو ثابت قدمی دکھانا ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدگی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان میں آپریشن اور افغانستان میں کوئی دوسرا کردار ادا کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پڑوسی ملک میں امن قائم ہو۔ ہمسایہ ممالک خصوصاًبھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت بھی یہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر بات چیت کی جائے، کراچی آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہر قائد میں کافی حد تک امن قائم ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری طاقت کے ساتھ جاری رہے گی۔ 2018ء تک لوڈشیڈنگ ختم کر دی جائیگی۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے، دوسرے ملک میں کیسے اسے فروغ دے سکتے ہیں۔ منصوبہ مکمل ہونیسے گیس مہنگے تیل کی جگہ لے گی۔ مہنگے تیل سے چھٹکارا ملے گا۔ دنیا دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کی معترف ہے۔ فرانسیسی صدر نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی تھی۔ فرانس نے دہشت گردی سے لڑنے کیلئے پاکستان سے مدد کی خواہش کا اظہار کیا۔ تاپی منصوبہ سے خوشحالی آئے گی۔ افغانستان کیلئے بھی ون ون سیچوئیشن ہے، بھارت کو بھی فائدہ ہو گا۔ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے جو بھی کر سکتا ہے کرے گا۔ اسلامی ممالک میں ترقی ہو گی، تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی تو شدت پسندی میں خاطر خواہ کمی ہو گی۔
اشک آباد (نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) ترکمانستان کے شہر میری میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف، افغانستان کے صدر اشرف غنی، ترکمانستان کے صدر قربان گلی بردی محمدوف اور بھارت کے نائب صدر محمد حامد انصاری نے دس ارب ڈالر لاگت کے توانائی کے اس بین العلاقائی منصوبے کا مشترکہ طورپر سنگ بنیاد رکھا۔ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے ذرائع کے مطابق منصوبے کے تحت 1735 کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ منصوبہ 2018ء میں مکمل ہوگا۔ گیس ترکمانستان کی گیس فیلڈ گال کینش سے حاصل کی جائے گی۔ ترکمانستان کی سرکاری کمپنی ترکمن گاز منصوبے پر کام کرنے والے کنسورشیم کی قیادت کرے گی۔ ترکمن گاز کے اس کنسورشیم میں 51 فیصد حصص ہیں۔ کنسورشیم میں شامل دیگر کمپنیوں میں افغان گیس انٹرپرائز، پاکستان کی انٹر سٹیٹ گیس سسٹم اور بھارت کی نیچرل گیس پراسیسنگ و ڈسٹری بیوشن کمپنی گیل شامل ہے۔ ایم ڈی انٹرسٹیٹ گیس سسٹم مبین صولت نے بتایا کہ انٹرسٹیٹ گیس سسٹم کے لیے تاپی گیس منصوبہ بہت بڑا چیلنج تھا، کئی سال کی کاوش کے بعد 2012 میں تاپی گیس منصوبے کے گیس سیل پرچیز معاہدے پر دستخط ہوئے، یہ منصوبہ پاکستان کیلئے سٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے، 2019 میں تاپی گیس منصوبے سے پاکستان کو گیس کی فراہمی شروع ہوجائے گی۔ بھارت سالانہ 200 تا 250 ملین ڈالر ٹرانزٹ فیس پاکستان کو ادا کریگا، پاکستان یہی رقم بطور ٹرانزٹ فیس افغانستان کو ادا کردیگا۔ تاپی گیس منصوبے پر 10 ارب ڈالر لاگت آئیگی، گیس پائپ لائن منصوبے کے 5 فیصد شیئرز پاکستان نے اور 5 فیصد بھارت نے خریدے ہیں۔ ترکمانستان نے گیس فیلڈ ڈویلپ کرنے کیلئے جاپان سے معاہدہ کیا ہے، جاپانی ماہرین ترکمانستان میں گیس فیلڈ ڈویلپ اور آپریٹ کریں گے۔ مستقبل میں بھارت اور پاکستان کے حالات اس منصوبے پر اثرانداز نہیں ہوں گے، معاہدے کے مطابق پاکستان کے راستے گیس پائپ لائن بھارت میں داخل ہوگی، بھارت نے اگر گیس خریدنے یا اس منصوبے سے علیحدگی اختیار کی تو معاہدے کے تحت ترکمانستان بھارت پر جرمانہ عائد کرنے کا مجاز ہے۔ تاپی منصوبے سے 3 ارب 20 کروڑ مکعب فٹ گیس برآمد ہو گی۔ تاپی منصوبے کے تحت 56 قطر کی 1680 کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی، منصوبے سے پاکستان کو ایک ارب 3 کروڑ 50 لاکھ مکعب فٹ گیس سالانہ ملے گی جبکہ افغانستان کو 50 کروڑ مکعب فٹ گیس ملے گی۔ گیس پائپ لائن افغانستان میں ہرات اور قندھار سے ہوتی ہوئی پاکستان پہنچے گی۔ پاکستان، ترکمانستان، افغانستان کے درمیان بجلی کی درآمد کے لئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں جس کے تحت ترکمانستان افغانستان کے راستے پاکستان کو بجلی برآمد کرے گا۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ اس بڑے منصوبے کا سنگ بنیاد چار علاقائی ملکوں کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔ تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ امن اور خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ میں معاون ثابت ہوگا۔ یہ خطے کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہے۔ تاپی گیس منصوبہ خطے کی ترقی کیلئے سنگ میل ثابت ہو گا۔ توانائی سے متعلق تمام منصوبے ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہیں، تاپی منصوبہ خطے میں امن اور تجارت کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے، منصوبہ ترکمانستان کے قدرتی وسائل جنوبی ایشیا تک پہنچانے میں اہم کردا ر ادا کرے گا۔ توانائی سے متعلق تمام منصوبے ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہیں، پاکستان چین اقتصادی راہداری کئی منصوبوں کا مجموعہ اور بھائی چارے کا ثبوت ہے۔ تاپی گیس منصوبے سے خطے میں ترقی کا نیا باب کھلے گا۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک کو درپیش توانائی بحران سے چھٹکارا دلا کر اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کیا جائے۔ اس سے قبل ترکمانستان کے شہر میری سٹی میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے قبل وزیر اعظم نواز شریف سے بھارت کے نائب صدر حامد انصاری اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملاقاتیں کیں جن میں باہمی تعاون بڑھانے اور تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کیلئے میری سٹی پہنچے تو ائرپورٹ پر وزیراعظم کا روایتی انداز میں پرتپاک استقبال کیا گیا ، ترکمانستان کے نائب وزیراعظم اور اعلیٰ حکام وزیراعظم کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ملاقات میں خطے میں باہمی تعاون بڑھانے اور تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم اور حامد انصاری نے جامع مذاکرات کی بحالی پر اظہار اطمینان کیا۔ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات پر بھی بات چیت کی گئی۔